عبداللہ بن عبید بن عمیر کہتے ہیں کہ میں ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں اپنے والد کے ساتھ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پہلو میں تھا کہ عباد بن عبداللہ بن زبیر نے کہا: ہم نے سنا ہے کہ عشاء کی نماز سے پہلے شام کا کھانا شروع کر دیا جاتا تھا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: افسوس ہے تم پر، ان کا شام کا کھانا ہی کیا تھا؟ کیا تم اسے اپنے والد کے کھانے کی طرح سمجھتے ہو؟ ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَطْعِمَةِ/حدیث: 3759]
وضاحت: ۱؎: یعنی ان کا کھانا بہت مختصر ہوتا تھا، تمہارے والد عبداللہ بن زبیر کے کھانے کی طرح پرتکلف اور نواع و اقسام کا نہیں ہوتا تھا کہ جس کے کھانے میں زیادہ وقت لگتا ہے اور جماعت چھوٹ جاتی ہے۔
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3759
فوائد ومسائل: فائدہ: حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی روایت (7358) سندا ضعیف ہے، لیکن حضرت عبد اللہ بن عبید بن عمیروالی روایت صحیح ہے۔ اور پچھلی حدیث کے مفہوم کی تایئد کرتی ہے۔ باب کی پہلی حدیث میں نماز سے پہلے کھانے اور دو احادیث کھانے کے لئے نماز کو موخر نہ کرنے کی تاکید کرتی ہیں۔ علامہ خطابی دونوں کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ کہ اگر کھانے کی طلب بہت زیادہ ہو اور دستر خوان بھی لگا دیا گیا ہو تو پہلے کھانا کھا لیا جائے۔ لیکن اگر یہ کیفیت نہ ہو۔ کھانے میں تکلفات ہوں اور بہت زیادہ دیر لگتی ہو اور نماز کا وقت یا جماعت نکل جانے کا اندیشہ ہوتو پہلے نماز پڑھ لی جائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعیدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3759