عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں وفد عبدالقیس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم کس برتن میں پیئیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دباء، مزفت اور نقیر میں مت پیو، اور تم نبیذ مشکیزوں میں بنایا کرو“ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول اگر مشکیزے میں تیزی آ جائے تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس میں پانی ڈال دیا کرو“ وفد کے لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! (اگر پھر بھی تیزی نہ جائے تو) آپ نے ان سے تیسری یا چوتھی مرتبہ فرمایا: ”اسے بہا دو ۱؎“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ نے مجھ پر شراب، جوا، اور ڈھولک کو حرام قرار دیا ہے“ یا یوں کہا: ”شراب، جوا، اور ڈھول ۲؎ حرام قرار دے دی گئی ہے اور ہر نشہ آور چیز حرام ہے“۔ سفیان کہتے ہیں: میں نے علی بن بذیمہ سے کوبہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: وہ ڈھول ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَشْرِبَةِ/حدیث: 3696]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم:(3690)، (تحفة الأشراف: 6333)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/274، 289، 350) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبیذ کا استعمال صرف اس وقت تک درست ہے جب تک کہ اس میں تیزی سے جھاگ نہ اٹھنے لگے، اگر اس میں تیزی کے ساتھ جھاگ اٹھنے لگے تو اس کا استعمال جائز نہیں ہے۔ ۲؎: حدیث میں «کوبۃ» کا لفظ ہے جس کے معنی: شطرنج، نرد، ڈگڈگی، بربط اور دوا وغیرہ پیسنے کے بٹہ کے آتے ہیں، یہاں پر علی بن بذیمۃ کی تفسیر کے مطابق «کوبۃ» کا ترجمہ ”ڈھول“ سے کیا گیا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح مشكوة المصابيح (4503)
لا تشربوا في الدباء ولا في المزفت ولا في النقير وانتبذوا في الأسقية قالوا يا رسول الله فإن اشتد في الأسقية قال فصبوا عليه الماء قالوا يا رسول الله فقال لهم في الثالثة أو الرابعة أهريقوه ثم قال إن الله حرم علي أو حرم الخمر والميسر والكوبة قال وكل م
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3696
فوائد ومسائل: 1۔ مشکیزےمیں ڈال ہوئے رس میں یہ شدت کسی خامرے کی آمیزش کے بغیر فطری طور پر پیدا ہوتی تھی۔
2۔ تیسری یا چوتھی بار پوچھنے سے پتہ چلا کہ وہ غیرمعمولی شدت ہے جو زیادہ وقت گزرنے کے ساتھ پیدا ہوتی ہے۔
3۔ جہاں شراب ایک مادی مشروب حرام ہے۔ کیونکہ عقل پر پردہ ڈال دیتی ہے، وہاں موسیقی ایک صوتی چیز ہے۔ جو بھلے چنگےآدمی کی عقل کو مائوف کر دیتی ہے۔ آلات موسیقی میں سے ایک ڈھول بھی ہے۔ جو حرام ہے۔ البتہ دف حلال ہے۔ جس پر ایک طرف سے چمڑا منڈا ہوتا ہے۔ اور دوسری طرف سے خالی ہوتا ہے۔ اسے ہاتھ سے بجایا جاتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3696
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5559
´ادھ کچی اور سوکھی کھجور کے سے بنے مشروب (نبیذ) کے ممنوع ہونے کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کدو کی تونبی، سبز رنگ کی ٹھلیا، روغنی برتن اور لکڑی کے برتن سے، ادھ کچی اور سوکھی کھجور کو ملانے سے اور انگور اور سوکھی کھجور کو ملانے سے منع فرمایا اور اہل ہجر (احساد) کو لکھا: انگور اور سوکھی کھجور کو ایک ساتھ نہ ملاؤ۔ [سنن نسائي/كتاب الأشربة/حدیث: 5559]
اردو حاشہ: تفصیل کے لیے دیکھیے حدیث نمبر: 5550
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5559
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5559
´ادھ کچی اور سوکھی کھجور کے سے بنے مشروب (نبیذ) کے ممنوع ہونے کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کدو کی تونبی، سبز رنگ کی ٹھلیا، روغنی برتن اور لکڑی کے برتن سے، ادھ کچی اور سوکھی کھجور کو ملانے سے اور انگور اور سوکھی کھجور کو ملانے سے منع فرمایا اور اہل ہجر (احساد) کو لکھا: انگور اور سوکھی کھجور کو ایک ساتھ نہ ملاؤ۔ [سنن نسائي/كتاب الأشربة/حدیث: 5559]
اردو حاشہ: تفصیل کے لیے دیکھیے حدیث نمبر: 5550
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5559
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5620
´مٹی کے برتن میں نبیذ بنانے سے ممانعت کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سبز رنگ کے برتن سے منع فرمایا ہے۔ راوی کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: «حنتم» کیا ہوتا ہے؟ کہا: مٹی کا برتن۔ [سنن نسائي/كتاب الأشربة/حدیث: 5620]
اردو حاشہ: اس روایت کی سند میں ابن عمر ؓ سے بیان کرنے والے روای کا نام ”خالد بن سحیم“ ذکر کیا گیا ہے جو کہ غلط ہے۔ صحیح ”جبلہ بن سحیم“ ہے۔ (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: 207/40)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5620
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5648
´ممنوع برتنوں کی شرح و تفسیر۔` زاذان کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے درخواست کی کہ مجھ سے کوئی ایسی بات بیان کیجئیے جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے برتنوں کے سلسلے میں سنی ہو اور اس کی شرح و تفسیر بھی بیان کیجئے تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لاکھی برتن سے روکا اور یہ وہی ہے جسے تم «جرہ»(گھڑا) کہتے ہو۔ «دباء» سے روکا، جسے تم «قرع»(کدو کی تُو نبی) کہتے ہو، «نقیر» سے روکا اور یہ کھجور کے درخت کی جڑ ہے جسے تم کھودتے ہو (اور برتن بنا لیتے [سنن نسائي/كتاب الأشربة/حدیث: 5648]
اردو حاشہ: مذکورہ برتنوں کی حیثیت کےمتعلق محقق بات تو حدیث: 5646 کے تحت ذکر ہو چکی ہے مگر بعض ائمہ مجتہدین،مثلا: امام احمد اور امام اسحاقؒ اس بات کے قائل ہیں جو حضرت ابن عمر اور ابن عباس ؓ کےمذکورہ بالا فرامین سے ظاہر ہوتی ہے کہ ان برتنوں میں اب بھی نبیذ بنانا حرام ہے اور ان برتنوں میں بنائی ہوئی نبیذ پینی منع ہے۔حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمر ؓ کا مسلک بھی یہی معلوم ہوتا ہے مگر اس سے بعض دوسری روایات متروک ہو جائیں گی جو نسخ پر دلالت کرتی ہیں۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5648
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5695
´نشہ لانے والی شراب کو مباح اور جائز قرار دینے کی احادیث کا ذکر۔` ابوجمرہ نصر بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: میری دادی میرے لیے ایک گھڑے میں میٹھی نبیذ تیار کرتی ہیں جسے میں پیتا ہوں۔ اگر میں اسے زیادہ پی لوں اور لوگوں میں بیٹھوں تو اندیشہ لگا رہتا ہے کہ کہیں رسوائی نہ ہو جائے، وہ بولے: عبدالقیس کا ایک وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا: ”خوش آمدید ان لوگوں کو جو نہ رسوا ہوئے، نہ شرمندہ“، وہ بولے: اللہ کے رسول! ہمارے اور آپ کے درمیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب الأشربة/حدیث: 5695]
اردو حاشہ: (1) اس روایت سے متعلقہ چند باتیں حدیث 5641 میں گزرچکی ہیں۔ (2)”رسوا نہ ہو جاؤں“ یعنی دماغ صحیح کام نہیں کرتا۔ گویا کچھ نہ کچھ نشہ ہوتا ہے۔ (3)”نہ رسوا ہوئے نہ نادم“ اگر لڑائی میں شکست کے بعد مسلمان ہوتے تو شکست کی رسوائی اٹھانا پڑتی اور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ لڑائی کی ندامت بھی ہوتی۔ اب اپنے آپ مسلمان ہوئے تو دونوں چیزوں سے محفوظ رہے۔ (4) اس با ت میں اختلاف ہے کہ آپ نے ان کو کن چیزوں کا حکم دیا اور کن چیزوں سے منع فرمایا کیونکہ ظاہراً تو ایک چیز کے حکم کا ذکر ہے یعنی ایمان باللہ۔ اور ایک چیز سے منع کا ذکر ہے یعنی مندرجہ بالا برتنوں کی نبیذ سے۔ گویا باقی چیزوں کا ذکر نہیں بلکہ کسی اور روایت میں بھی ان کا ذکر نہیں۔ بعض حضرات کے نزدیک وہ چیزیں وہی ہیں جو ایمان باللہ کی تفسیر ہیں مگر وہ تو چار ہیں جب کہ اوپر تین چیزوں کے حکم کا ذکر ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ شہادتین کو شمار نہیں کیا گیا کیونکہ وہ شہادتین تو ادا کر چکے تھے۔ اسی طرح چار ممنوع چیزوں سے مراد چار برتن ہی ہیں۔ واللہ أعلم۔ (5) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے جواب سے مقصود یہ ہے کہ ایسی نبیذ جس میں نشے کا شک یا امکان ہو، نہیں پینی چاہیے، چہ جائیکہ ایسی نبیذ پی جائے جو حقیقتاً نشہ آور ہو۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5695