ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہدیہ قبول فرماتے تھے، اور اس کا بدلہ دیتے تھے۔ [سنن ابي داود/كِتَابُ الْإِجَارَةِ/حدیث: 3536]
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3536
فوائد ومسائل: مسنون اور مستحب ہے۔ کہ انسان ہدیے کا معقول بدل دیا کرے۔ اس سے طرفین میں محبت بڑھتی ہے۔ اگر مالی طور پر کچھ نہ دے سکے۔ تو بہت زیادہ شکریہ ادا کرے۔ (سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 4811۔ ومابعد) اور حدیث میں یہ بھی ہے۔ جس نے اپنے محسن کو (جزاك اللہ خیرا) کہہ دیا تو اس نے اس کی بہت تعریف کی (جامع الترمذي، البر والصلة، حدیث: 2035) ہدیہ (عطیہ) اور ہبہ میں یہ فرق ہے کہ ہدیہ دینے والا۔ اس شخص کے قریب ہونا چاہتا ہے۔ جس کو وہ ہدیہ دیتا ہے جب کہ ہبہ میں یہ غرض نہیں ہوتی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3536
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 791
´ھبہ عمری اور رقبی کا بیان` سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہدیہ و تحفہ قبول فرما لیتے تھے اور اس کے بدلے میں کچھ عنایت بھی فرمایا کرتے تھے۔ (بخاری) «بلوغ المرام/حدیث: 791»
تخریج: «أخرجه البخاري، الهبة، باب المكافأة في الهبة، حديث:2585.»
تشریح: 1. تحفہ قبول کرنا اور اس کا بدلہ دینا سنت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ہے‘ بلکہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ آپ ہدیہ و تحفہ کا بدلہ بہتر صورت میں ادا فرمایا کرتے تھے۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ:۶ /۵۵۱) 2. ہدیے کا بدلہ دینے کی گنجائش نہ ہو تو کم از کم ہدیہ دینے والے کو جَزَاکَ اللّٰہُ خَیْرًا کی دعا کا تحفہ ضرور دینا چاہیے۔ 3.کسی نے دوسرے کو تحفہ اس نیت و خیال سے دیا کہ وہ بھی ضرور تحفہ دے تو امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک یہ باطل ہے اور دوسرے ائمہ کے نزدیک جائز ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 791
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2585
2585. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ ہدیہ قبول فرمالیتے اور اس کابدلہ بھی دیتے تھے۔ وکیع اور محاضر نے ہشام عن أبیه کے طریق سے اس روایت کو (موصول) ذکر نہیں کیا۔ (یعنی صرف عیسیٰ بن یونس نے اس طریق سے موصول بیان کیا ہے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:2585]
حدیث حاشیہ: حدیث کے آخر میں راوی کے الفاظ لم يذکر وکیع و محاضر عن هشام عن أبیه عن عائشة کا مطلب یہ کہ وکیع اور محاضر ہر دو راویوں نے اس حدیث کو ہشام سے، انہوں نے اپنے باپ سے، انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے وصل نہیں کیا، بلکہ مرسلاً ہشام سے روایت کیا۔ ترمذی اور بزار نے کہا اس حدیث کو صرف عیسیٰ بن یونس نے وصل کیا۔ حافظ نے کہا وکیع کی روایت کو تو ابن ابی شیبہ نے نکالا، اور محاضر کی روایت مجھ کو نہیں ملی۔ بعضے مالکیہ نے اس حدیث سے ہبہ کا بدلہ کرنا واجب رکھا ہے اور حنفیہ اور شافعیہ اور جمہور کے نزدیک واجب نہیں مستحب ہے۔ قسطلانی ؒنے کہا ہبہ بالمعاوضہ اگر معین اور معلوم معاوضہ کے بدل ہو تو بیع کی طرح درست ہوگا اور اگر معاوضہ مجہول ہو تو ہبہ صحیح نہ ہوگا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2585
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2585
2585. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ ہدیہ قبول فرمالیتے اور اس کابدلہ بھی دیتے تھے۔ وکیع اور محاضر نے ہشام عن أبیه کے طریق سے اس روایت کو (موصول) ذکر نہیں کیا۔ (یعنی صرف عیسیٰ بن یونس نے اس طریق سے موصول بیان کیا ہے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:2585]
حدیث حاشیہ: رسول اللہ ﷺ کی سیرت طیبہ کا تقاضا ہے کہ ہدیہ قبول کرنے کے بعد ہدیہ دینے والے کو بدلے میں کچھ دیا جائے، نیز ہدیہ دینے والا اگر ضرورت مند ہے تو وہ اپنے ہدیے کے بدلے کی توقع بھی رکھ سکتا ہے۔ بعض حضرات نے ہبے کا بدلہ دینا واجب قرار دیا ہے جبکہ جمہور محدثین کے نزدیک ایسا کرنا مستحب ہے کیونکہ ایسا کرنا اعلیٰ ظرفی اور بلند اخلاقی سے تعلق رکھتا ہے۔ قرآن کریم سے بھی اس کا واضح اشارہ ملتا ہے۔ (النساء86: 4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2585