عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے بندوں میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جو انبیاء و شہداء تو نہیں ہوں گے لیکن قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی جانب سے جو مرتبہ انہیں ملے گا اس پر انبیاء اور شہداء رشک کریں گے“ لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ ہمیں بتائیں وہ کون لوگ ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ ایسے لوگ ہوں گے جن میں آپس میں خونی رشتہ تو نہ ہو گا اور نہ مالی لین دین اور کاروبار ہو گا لیکن وہ اللہ کی ذات کی خاطر ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہوں گے، قسم اللہ کی، ان کے چہرے (مجسم) نور ہوں گے، وہ خود پرنور ہوں گے انہیں کوئی ڈر نہ ہو گا جب کہ لوگ ڈر رہے ہوں گے، انہیں کوئی رنج و غم نہ ہو گا جب کہ لوگ رنجیدہ و غمگین ہوں گے“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: «ألا إن أولياء الله لا خوف عليهم ولا هم يحزنون»”یاد رکھو اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں“(سورۃ یونس: ۶۲)۔ [سنن ابي داود/كِتَابُ الْإِجَارَةِ/حدیث: 3527]
من عباد الله لأناسا ما هم بأنبياء ولا شهداء يغبطهم الأنبياء والشهداء يوم القيامة بمكانهم من الله قالوا يا رسول الله تخبرنا من هم قال هم قوم تحابوا بروح الله على غير أرحام بينهم ولا أموال يتعاطونها فوالله إن وجوههم لنور وإنهم على نور لا يخافون إذا خاف النا
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3527
فوائد ومسائل: فائدہ۔ اس حدیث کا کتاب الرہن سے بظاہر کوئی ربط معلوم نہیں ہوتا۔ سوائے اس کے کہ اہل ایمان میں فی اللہ محبت کی بنا پر بخوشی ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں۔ اور انھیں ایک دوسرے پر کامل اعتماد ہوتا ہے۔ اور رہن دینا لینا کوئی واجب نہیں ہے۔ قرآن مجید میں ہے۔ (فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُم بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ)(البقرة:283) اور اگر تم میں سے کوئی دوسرے پر اعتبار کرے تو جس شخص پراعتبار کیا گیا ہو اسے چاہیے کہ دوسرے کی امانت واپس ادا کردے۔ یعنی رہن (گروی) رکھنا۔ ایک دوسرے پر عدم اعتماد اورامانت ودیانت کے فقدان کی دلیل ہے۔ جہاں اس کے برعکس صورت حال ہوگی۔ یعنی ایک دوسرے کی امانت ودیانت پر اعتماد ہوگا۔ وہاں رہن کے بغیر بھی قرض لینے دینے میں نقصان کا خظرہ نہیں ہوگا۔ اور ایسا ہی معاشرہ اسلام کا مثالی معاشرہ ہے۔ اس حدیث میں اسی معاشرے کی طرف اشارہ ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3527