عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی کسی کی بیع پر بیع نہ کرے ۱؎ اور تاجر سے پہلے ہی مل کر سودا نہ کرے جب تک کہ وہ اپنا سامان بازار میں نہ اتار لے ۲؎“۔ [سنن ابي داود/كِتَابُ الْإِجَارَةِ/حدیث: 3436]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/البیوع 71 (2168)، صحیح مسلم/البیوع 5 (1517)، سنن النسائی/البیوع 18 (4507)، سنن ابن ماجہ/التجارات (2179)، (تحفة الأشراف: 8329، 8059)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/ البیوع 45 (95)، مسند احمد (2/7، 22، 63، 91) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی ایک کے خریدار کو دوسرا نہ بلائے، یا اس کے گاہک کو نہ توڑے، مثلا، یہ کہے کہ یہ اتنے میں دے رہا ہے، تو چل میرے ساتھ میں تجھے یہی مال اس سے اتنے کم میں دے دوں گا۔ ۲؎: چونکہ تاجر کو بازار کی قیمت کا صحیح علم نہیں ہے اس لئے بازار میں پہنچنے سے پہلے اس سے سامان خریدنے میں تاجر کو دھوکہ ہو سکتا ہے، اسی لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تاجروں کے بازار میں پہنچنے سے پہلے ان سے مل کر ان کا سامان خریدنے سے منع فرما دیا ہے اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو تاجر کو اختیار حاصل ہو گا بیع کے نفاذ اور عدم نفاذ کے سلسلہ میں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2139، 2165) صحيح مسلم (1412 بعد ح 1514)
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 505
´دوسرے کے سودے پر سودا کرنا جائز نہیں ہے` «. . . 242- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”لا يبع بعضكم على بيع بعض.“ . . .» ”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک دوسرے کے سودے پر سودا نہ کرو . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 505]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2165، ومسلم 7/1412 بعد ح1514، من حديث مالك به] تفقه: ➊ اگر ایک شخص سودا خرید رہا ہو تو دوسرے شخص کو یہ سودا خریدنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ اگر سودے کی بولی لگ رہی ہے تو یہ اس سے مستثنیٰ ہے۔ ➋ نیز دیکھئے ح353 ➌ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر مسئلہ قرآن مجید میں بصراحت موجود ہو اس لئے اگر صحیح حدیث یا آثار سلف صالحین سے بھی ثابت ہو جائے تو استدلال کرنا صحیح ہے۔ صحیح حدیث سے استدلال تو واجب و فرض ہے اور آثار سے استدلال جائز ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 242
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 832
´(نکاح کے متعلق احادیث)` سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تم میں سے کوئی اپنے بھائی کے پیغام نکاح پر پیغام نکاح نہ دے تاوقتیکہ کہ پیغام نکاح دینے والا اس سے پہلے اسے از خود چھوڑ دے یا پیغام نکاح دینے والا اجازت دیدے۔“(بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 832»
تخریج: «أخرجه البخاري، النكاح، باب لا يخطب علي خطبة أخيه حتي ينكح أويدع، حديث:5142، ومسلم، النكاح، باب تحريم الخطبة علي خطبة أخيه حتي يأذن أويترك، حديث:1412.»
تشریح: 1. اس حدیث کی رو سے پیغام نکاح پر پیغام نکاح دینا جائز نہیں‘ مگر حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہما کے واقعے سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ ایک وقت میں دو تین پیغام دیے جا سکتے ہیں کیونکہ اس خاتون کو دو پیغام نکاح پہنچے تو یہ مشورے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور صورتحال بیان کر کے مشورہ طلب کیا مگر یہ اس روایت کے خلاف نہیں۔ ممکن ہے دوسری بار پیغام نکاح دینے والے کو پہلے پیغام کا علم نہ ہو۔ 2.بعض نے کہا ہے کہ منگنی طے ہو جانے کے بعد پیغام نکاح کی ممانعت ہے پہلے نہیں۔ 3.جمہور علماء کے نزدیک یہ ممانعت تحریمی ہے اور یہی بات راجح ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 832
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3240
´اپنے (کسی دینی) بھائی کے پیام پر پیام دینے کی ممانعت کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی کسی دوسرے کے پیغام پر پیغام نہ دے“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3240]
اردو حاشہ: (1) کسی کے پیغام پر پیغام بھیجنا اخلاق کے منافی ہے بلکہ حسد اور خود غرضی کا آئینہ دار ہے، اس لیے اسلام نے ا س سے منع فرمایا ہے۔ شریعت اسلامی کا یہ طرۂ امتیاز ہے کہ یہ فرد اور معاشرے کی اصلاح کرتی ہے، باہمی الفت اور مودت کی ترغیب اور اختلاف، دشمنی اور نفرت کا سبب بننے والی ہر چیز سے روکتی ہے۔ (2) ہاں اگر پیغام رد ہوجائے یا عورت اور اس کے ولی مزید پیغامات کے خواہش مند ہوں یا پہلے پیغام بھیجنے والا اجازت دے دے یا ایک ہی وقت میں دو تین پیغام آجائیں تو کوئی حرج نہیں، پیغام بھیجا جاسکتا ہے۔ منع تب ہے جب بات چیت چل رہی ہو اور رجحان ہوچکا ہو، پیغام قبول ہوچکا ہو یا قبولیت کے قریب ہو۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3240
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3245
´شادی کے لیے پہلے پیغام دینے والے کے دست بردار ہو جانے یا اجازت دینے پر دوسرا شخص پیغام دے۔` عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ تم میں سے بعض بعض کی بیع پر بیع کرے ۱؎ اور نہ ہی کوئی آدمی دوسرے آدمی کے شادی کے پیغام پر اپنا پیغام دے۔ جب تک (پہلا) پیغام دینے والا چھوڑ نہ دے ۲؎ یا وہ دوسرے کو پیغام دینے کی اجازت نہ دیدے۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3245]
اردو حاشہ: اگر ایک شحص سودا کررہا ہے تو کسی دوسرے کے لیے جائز نہیں کہ وہ سودا شروع کرے، چہ جائیکہ سودا ہوچکا ہو۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3245
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4502
´شہری دیہاتی کا مال بیچے یہ کیسا ہے؟` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھاؤ پر بھاؤ بڑھانے سے، شہری کا باہر جا کر دیہاتی سے مال لینے سے اور اس بات سے منع فرمایا کہ شہری دیہاتی کا سامان بیچے۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4502]
اردو حاشہ: تفصیلات حدیث: 4496 میں بیان ہو چکی ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4502
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4503
´آگے بڑھ کر تجارتی قافلے سے ملنا منع ہے۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارتی قافلے سے آگے جا کر ملنے سے منع فرمایا۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4503]
اردو حاشہ: تفصیل کے لیے دیکھئے: حدیث: 4496، فائدہ: 1۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4503
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4508
´(مسلمان) بھائی کی بیع پر بیع کرنا منع ہے۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی اپنے بھائی کی بیع پر بیع نہ کرے یہاں تک کہ وہ اسے خرید لے یا چھوڑ دے۔“[سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4508]
اردو حاشہ: تفصیل کے لیے دیکھئے، حدیث: 4496، فائدہ: 4۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4508
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2081
´آدمی کا اپنے بھائی کے پیغام پر پیغام بھیجنا مکروہ ہے۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی نہ تو اپنے بھائی کے نکاح کے پیغام پر پیغام دے اور نہ اس کے سودے پر سودا کرے البتہ اس کی اجازت سے درست ہے ۱؎۔“[سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2081]
فوائد ومسائل: کسی شخص نے کسی گھر میں نکاح کا پیغام بھیجا ہو تو دوسرے کسی شخص کو یہ جانتے ہوئے کہا کہ انہیں پیغام دیا گیا ہے اور انہوں نے ہاں یا نہ میں کوئی جواب نہیں دیا ہے، اپنا پیغام نہیں بھیجنا چاہیے۔ الا یہ کہ واضح ہو کہ ان کی خاموشی انکار کے معنی میں ہے۔ اگر نسبت طے ہو چکی ہو تو اپنا پیغام بھیج کر پہلی نسبت تڑوانے کی کوشش کرنا حرام ہے۔ کیونکہ اس طرح دو مسلمان بھائیوں یا خاندانوں میں کشمکش اور عداوت کا قومی اندیشہ ہے اگر ہاں پہلا فریق اجازت دے دے تو کوئی حرج نہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2081
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1868
´مسلمان بھائی کے شادی کے پیغام پر پیغام نہ دے۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شخص اپنے بھائی کے پیغام پر پیغام نہ دے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1868]
اردو حاشہ: فوائدومسائل:
(1)(خِطبۃ) ” خا“ کی زیر سے کا مطلب ہے کہ نکاح کے لیے بات چیت شروع کرنا یعنی کسی عورت کے سرپرستوں سے یہ درخواست کرنا کہ وہ اس کا رشتہ دے دیں۔ جب کسی عورت کے لیے اس کے گھر والوں سے بات چیت ہو رہی ہو اور رشتہ طے پا جانے کی امید ہو تو دوسرے آدمی کو اس عورت کے لیے بات چیت شروع نہیں کرنی چاہیے۔
(2) اگر محسوس ہو کہ ابھی عورت نے اس مرد کو قبول کرنے کا فیصلہ نہیں کیا اور اس کی طرف واضح میلان نہیں تو دوسرے آدمی بھی پیغام بھیج سکتا ہے تاکہ عورت فیصلہ کر سکے کہ اس کے لیے ان دونوں میں سے کون سا مرد زیادہ مناسب ہے اور اس کے سرپرست بھی معاملے پر بہتر انداز سے غور کر سکیں۔
(3) اس ممانعت میں یہ حکمت ہے کہ مسلمانوں کے باہمی معاملات میں بگاڑ پیدا نہ ہو اور آپس میں ناراضی پیدا نہ ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1868
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1292
´اپنے بھائی کی بیع پر بیع کرنا منع ہے۔` عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی دوسرے کی بیع پر بیع نہ کرے ۱؎ اور نہ کوئی کسی کے شادی کے پیغام پر پیغام دے۔“[سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1292]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: دوسرے کی بیع پر بیع کی صورت یہ ہے، بیع ہوجانے کے بعد مدت خیارکے اندر کوئی آکریہ کہے کہ تو یہ بیع فسخ کردے تو میں تجھ کو اس سے عمدہ چیز اس سے کم قیمت پر دیتا ہوں کہ اس طرح کہنا جائزنہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1292
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3811
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی دوسرے کی بیع پر بیع نہ کرے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:3811]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: ایک انسان دوسرے انسان کو کوئی چیز فروخت کرتا ہے یا اس سے خریدتا ہے لیکن انہیں بیع کے فسخ کا اختیار ہے تو دوسرا آدمی آ کر کہتا ہے یہ بیع فسخ کر دو، میں تمہیں یہی چیز اس سے سستی دیتا ہوں، یا اس سے بہتر اور عمدہ اس قیمت پر دیتا ہوں یا بائع کو کہے میں تم سے اس سے زیادہ قیمت پر خریدتا ہوں، یہ تمام صورتیں ناجائز ہیں کیونکہ یہ چیز ایک فریق کے لیے نقصان کا باعث ہے، جس سے آپس میں دنگا و فساد پیدا ہو سکتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3811
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3812
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’انسان اپنے بھائی کی بیع پر بیع نہ کرے اور نہ اپنے بھائی کی منگنی پر منگنی کرے، اِلا یہ کہ وہ اسے اجازت دے دے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:3812]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: بعض حضرات نے اخيه کے لفظ سے یہ بات نکالی ہے کہ مسلمان کی بیع پر بیع جائز نہیں ہے۔ لیکن کافر کی بیع پر بیع جائز ہے۔ لیکن جمہور کے نزدیک یہ قید اغلبی یا اتفاقی ہے، وگرنہ جو کافر مسلمان ملک میں رہتے ہیں یا جن سے معاہدہ ہوتا ہے ان کا بھی یہی حکم ہے، اور اجازت کا تعلق بیع اور منگنی دونوں سے ہے، کیونکہ جب خود اجازت دے دی تو پھر باہمی حسد و عناد اور لڑائی جھگڑے کا خطرہ نہیں رہے گا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3812
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3819
امام صاحب اپنے تین اساتذہ کی سندوں سے، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کی روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا کہ تجارتی سامان بازار میں پہنچنے سے پہلے (اس کے مالکوں سے) ملا جائے، یہ ابن نمیر کے الفاظ ہیں اور دوسرے دو اساتذہ نے کہا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تلقی (ملاقات) سے منع فرمایا ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3819]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: تلقي الجبلب، تلقي البيوع، تلقي الركبان، تلقي السلع اور تلقي، سب کا مقصد ایک ہی ہے کہ تجارتی قافلہ کو آگے بڑھ کر، شہر سے باہر، پیشتر اس کے کہ انہیں شہر کا نرخ معلوم ہو، ان سے تجارتی سامان خرید لینا، کیونکہ اس میں دو نقصان ہو سکتے ہیں، بیوپاری یا باہر سے آنے والے تاجر کو شہر کے بھاؤ کا علم نہیں ہے، اس لیے وہ سامان اصل قیمت سے جو بازار میں مل سکتی ہے سستا فروخت کر دے گا، شہریوں کو یہ نقصان ہو گا کہ شہر سے باہر خریدنے والا تاجر، اب اس چیز کو بیچنے پر من مانی کرے گا، لوگوں کو اس چیز کی ضرورت ہے لیکن وہ بیچتا نہیں ہے یا بہت مہنگا بیچتا ہے اور اگر سامان شہر میں آ کر بکتا تو دوسرے لوگ بھی خرید سکتے تھے۔ اس بات پر ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے کہ تجارتی قافلہ کو شہر سے باہر، سامان خریدنے کے لیے ملنا جائز نہیں ہے۔ لیکن اگر قافلہ والوں کو شہر کے نرخ کا علم ہو اور اہل شہر کا نقصان بھی نہ ہو، تو پھر امام ابو حنیفہ کے نزدیک جائز ہے، بعض شوافع اور بعض مالکیہ کا قول بھی یہی ہے جیسا کہ بخاری شریف کی، ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم قافلہ والوں کو ملتے اور ان سے غلہ خرید لیتے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس کو غلہ منڈی میں لائے بغیر فروخت کرنے سے منع فرما دیا، اور اس کی توجیہ امام بخاری نے یہ فرمائی ہے کہ شہر سے باہر تلقی منع ہے اور بازار کے آغاز میں آ کر، بازار میں لائے بغیر، بھاؤ معلوم ہونے کی بنا پر خرید لینا جائز ہے اور آگے بازار میں لا کر اس کو فروخت کر دیا جائے گا اس سے معلوم ہوا اگر ضرر شہریوں کے لیے نہ ہو اور قافلہ والے نرخ سے بے خبر نہ ہوں۔ تو تلقی میں کوئی حرج نہیں ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3819
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2159
2159. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کا مال بیچے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2159]
حدیث حاشیہ: ابن عباس ؓ کا قول اوپر گزرا کہ بستی والے باہر والا کا دلال نہ بنے۔ یعنی اجرت لے کر اس کا مال نہ بکوائے اور باب کا بھی یہی مطلب ہے۔ امام شوکانی ؒ فرماتے ہیں و اعلم أنه کما لا یجوز أن لا یبیع الحاضر للبادي کذلك لا یجوز أن یشتري له الخ۔ یعنی جیسے کہ شہری کے لیے دیہاتی کا مال بیچنا منع ہے اسی طرح یہ بھی منع ہے کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کے لیے کوئی مال اس کی اطلاع اور پسند کے بغیر خریدے۔ یہ جملہ احکامات درحقیقت اس لیے ہیں کہ کوئی شہری کسی بھی صورت میں کسی دیہاتی سے ناجائز فائدہ نہ اٹھائے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2159
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5142
5142. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے منع فرمایا کہ ایک آدمی دوسرے کی خرید و فروخت پر خرید و فروخت کرے اور (اس سے بھی منع فرمایا کہ) اپنے بھائی کے پیغام نکاح پر کوئی دوسرا پیغام بھیجے حتیٰ کہ پہلا پیغام دینے والا اس سے پہلے ترک کر دے یا وہ اسے اجازت دے دے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5142]
حدیث حاشیہ: دیانت اور امانت کا تقاضا ہے کہ کسی بھائی کے سودے میں یا اس کی منگنی میں دخل اندازی نہ کی جائے ہاں وہ خود ہٹ جائے تو بات الگ ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5142
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2165
2165. حضرت ابن عمر ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کوئی ایک دوسرے کو بیع پر بیع نہ کرے اور نہ باہر جاکر قافلے سے سامان ہی خریدوحتیٰ کہ اسے بازار میں لایا جائے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2165]
حدیث حاشیہ: بیع پر بیع کا مطلب ظاہرہے کہ ایک شخص کسی مسلمان بھائی کی دکان سے کوئی مال خرید رہا ہے ہم نے اسے جاکر بہکانا شروع کر دیا کہ آپ یہاں سے یہ مال نہ لیجئے ہم آپ کو اور بھی سستا دلا دیں گے۔ اس قسم کی باتیں کرنا بھی حرام ہیں۔ ایسے ہی کہیں جاکر بھاؤ چڑھا دینا محض خریدار کو نقصان پہنچانے کے لیے حالانکہ خود خریدنے کی نیت بھی نہیں ہے۔ یہ سب مکروہ فریب اور دوسروں کو نقصان پہنچانے کی صورتیں ہیں جو سب حرام اور ناجائز ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2165
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2159
2159. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کا مال بیچے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2159]
حدیث حاشیہ: حضرت ابن عمر ؓ کی اس حدیث میں اجرت کے ساتھ شہری کا دیہاتی کے لیے خریدوفروخت کی ممانعت کا ذکر نہیں ہے لیکن حضرت ابن عباس ؓ کی سابقہ تفسیر کی وجہ سے اسے مقید کہا گیا ہے۔ (2) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ اجرت کے ساتھ کسی دوسرے کے لیے خریدوفروخت ناجائز ہے اور اجرت کے بغیر خیر خواہی کے طور پر ایسا کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے نزدیک ممانعت کے لیے پانچ باتوں کا ہونا ضروری ہے: ٭ دیہات سے کوئی آدمی اپنا سامان بیچنے کےلیے آئے۔ ٭وہ اسی دن کے بھاؤ پر سامان فروخت کرنا چاہتا ہو۔ ٭بھاؤ کا اسے علم نہ ہو۔ ٭شہری آدمی قصد کرکے اس کے پاس جائے۔ ٭مسلمانوں کو دیہاتی کے سامان کی ضرورت ہو۔ اگر یہ باتیں موجود ہوں تو شہری کا دیہاتی کے لیے خریدوفروخت کرنا ناجائز ہے بصورت دیگر صحیح ہے۔ یہ جملہ احکامات در حقیقت اس لیے ہیں کہ کوئی شہری کسی بھی صورت میں کسی دیہاتی سے ناجائز فائدہ نہ اٹھائے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2159
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2165
2165. حضرت ابن عمر ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کوئی ایک دوسرے کو بیع پر بیع نہ کرے اور نہ باہر جاکر قافلے سے سامان ہی خریدوحتیٰ کہ اسے بازار میں لایا جائے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2165]
حدیث حاشیہ: (1) بیع پر بیع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ بائع اور مشتری دونوں کسی قیمت پر اتفاق کرلیں،پھر کوئی شخص مالک سے کہے: تم یہ چیز مجھے زیادہ قیمت پر فروخت کرو یا خریدار سے کہے کہ میں تمھیں اس سے سستی چیز دیتا ہوں۔ اس طرح دونوں کے درمیان دخیل ہونا حرام ہے۔ اگر قیمت طے نہ ہوئی ہو تو اس وقت چیز کی بولی دینا اور قیمت بڑھانا جائز ہے۔ (2) اس حدیث میں باہر جاکر قافلے والوں سے سامان خریدنے کی ممانعت ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ ایک شہری آدمی سامان تجارت لانے والوں کو شہر کی مارکیٹ میں سامان لانے سے پہلے پہلے راستے ہی میں جاملے تاکہ بھاؤ کے متعلق غلط بیانی کرکے اس سے سستے داموں خریدے اور اس کی اصل قیمت سے کم قیمت پر اسے حاصل کرے۔ منع کرنے سے مقصود یہ ہے کہ فروخت کرنے والا دھوکا دیے جانے اور نقصان پہنچائے جانے سے محفوظ رہے۔ امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک ایسا کرنا جائز ہے جبکہ یہ احادیث اس بات کا رد کرتی ہیں۔ الغرض بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ شہری بیوپاری بیرونی قافلوں سے غلے کی رسد کو شہر سے دور نکل کو خرید لیتے ہیں اور منڈی میں اسے مہنگے دام فروخت کرتے ہیں۔ امام بخاری ؒ کے نزدیک ایسی بیع حرام ہے۔ بعض محدثین کے نزدیک یہ بیع صحیح ہے،البتہ مالک کو اختیار ہے کہ منڈی کا بھاؤ معلوم ہونے کے بعد اگر چاہے تو سودا برقرار رکھے چاہے توفسخ کردے۔ والله أعلم.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2165