ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو (خیبر) بھیجتے تھے، تو وہ کھجوروں کا اٹکل اندازہ لگاتے تھے جس وقت وہ پکنے کے قریب ہو جاتا کھائے جانے کے قابل ہونے سے پہلے پھر یہود کو اختیار دیتے کہ یا تو وہ اس اندازے کے مطابق نصف لے لیں یا آپ کو دے دیں تاکہ وہ زکوٰۃ کے حساب و کتاب میں آ جائیں، اس سے پہلے کہ پھل کھائے جائیں اور ادھر ادھر بٹ جائیں۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 3413]
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3413
فوائد ومسائل: مذکورہ روایت اور اوپر بیان کردہ دیگر صحیح احادیث سے یہ ثابت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس فن میں ماہر تھے۔ اور یہ کہ ایک مبنی برانصاف طریقہ کار کے مطابق پیداوار تقسیم کی جاتی تھی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3413
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1606
´کھجور کا تخمینہ کب لگایا جائے گا؟` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا خیبر کے معاملہ کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو یہودیوں کے پاس بھیجتے تو وہ کھجور کو اس وقت اندازہ لگاتے جب وہ پکنے کے قریب ہو جاتی قبل اس کے کہ وہ کھائی جا سکے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1606]
1606. اردو حاشیہ: اس روایت کی سند ضعیف ہے مگر دیگر شواہد سے صحیح ثابت ہے۔جیسے کہ آگے (کتاب لبیوع باب فی الخرص حدیث 3415)میں حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے۔خیبر کا علاقہ فتح ہوجانے کے بعد وہاں کی زمینیں اور باغات بطور مزارعت ان یہودیوں کے پاس ہی رہے۔اورحسب معاہدہ نصف آمدنی ان سے لی جاتی تھی۔اور حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پھلوں کا اندازہ لگانے کا فریضہ سرانجام دیتے تھے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1606