عمرو بن دینار کہتے ہیں میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ ہم مزارعت میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے یہاں تک کہ میں نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے، میں نے طاؤس سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے نہیں روکا ہے بلکہ یہ فرمایا ہے کہ تم میں سے کوئی کسی کو اپنی زمین یونہی بغیر کسی معاوضہ کے دیدے تو یہ کوئی متعین محصول (لگان) لگا کر دینے سے بہتر ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 3389]
وضاحت: ۱؎: مزارعت یعنی بٹائی پر زمین دینے کی جائز شکل یہ ہے کہ مالک اور بٹائی پر لینے والے کے مابین زمین سے حاصل ہونے والے غلہ کی مقدار اس طرح متعین ہو کہ ان دونوں کے مابین جھگڑے کی نوبت نہ آئے اور غلہ سے متعلق نقصان اور فائدہ میں طے شدہ امر کے مطابق دونوں شریک ہوں یا روپے پیسے کے عوض زمین بٹائی پر دی جائے اور مزارعت کی وہ شکل جو شرعاً ناجائز ہے وہ حنظلہ بن قیس کی حدیث نمبر (۳۳۹۲) میں مذکور ہے۔
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:519
519- عمرو نامی راوی کہتے ہیں: میں نے طاؤس سے کہا: اے ابوعبدالرحمٰن! اگر آپ (زمین کو) ٹھیکے پر دینا ترک کردیں (تو یہ مناسب ہوگا)، کیونکہ لوگوں نے یہ بات بیان کی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کیا ہے، تو طاؤس بولے: اے عمرو! جو صاحب ان سب لوگوں سے زیادہ علم رکھتے ہیں، طاؤس کی مراد سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما تھے، انہوں نے مجھے یہ بات بتائی ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع نہیں کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا تھا: ”کوئی شخص اپنے کسی بھائی کو اپنی زمین (بلا معاوضہ) دیدے، یہ اس کے لئے اس سے زیادہ بہتر ہے کہ وہ اس سے اس کا متعین معاوضہ وصول کرے۔“ پھر ط۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:519]
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ زمین حصے پر دینا درست ہے، جب اس میں دھوکا نہ ہو، اگر اس میں دھوکا ہو تو اس وقت یہ درست نہیں ہے، زمین کا مالک اور حصے پر لینے والا دونوں نفع و نقصان میں شریک ہوں گے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 519