میمونہ بنت کردم کہتی ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ حجۃ الوداع میں نکلی، تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، اور لوگوں کو کہتے ہوئے سنا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، میں نے آپ پر اپنی نظریں گاڑ دیں، میرے والد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب ہوئے آپ اپنی ایک اونٹنی پر سوار تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس معلمین مکتب کے درہ کے طرح ایک درہ تھا، میں نے بدویوں اور لوگوں کو کہتے ہوئے سنا: شن شن (درے کی آواز جو تیزی سے مارتے اور گھماتے وقت نکلتی ہے) تو میرے والد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب ہو گئے اور (جا کر) آپ کے قدم پکڑ لیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اعتراف و اقرار کیا، آپ کھڑے ہو گئے اور ان کی باتیں آپ نے توجہ سے سنیں، پھر انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے نذر مانی ہے کہ اگر میرے یہاں لڑکا پیدا ہو گا تو میں بوانہ کی دشوار گزار پہاڑیوں میں بہت سی بکریوں کی قربانی کروں گا۔ راوی کہتے ہیں: میں یہی جانتا ہوں کہ انہوں نے پچاس بکریاں کہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا وہاں کوئی بت بھی ہے؟“ انہوں نے کہا: نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے اللہ کے لیے جو نذر مانی ہے اسے پوری کرو“ انہوں نے (بکریاں) اکٹھا کیں، اور انہیں ذبح کرنے لگے، ان میں سے ایک بکری بدک کر بھاگ گئی تو وہ اسے ڈھونڈنے لگے اور کہہ رہے تھے اے اللہ! میری نذر پوری کر دے پھر وہ اسے پا گئے تو ذبح کیا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ/حدیث: 3314]
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3314
فوائد ومسائل: چاہیے کہ جہاں کی نذر مانی گئی ہو۔ وہیں پوری کی جائے۔ الا یہ کہ کوئی مقام اس سے زیادہ افضل ہو، جیسے کہ حرمین تو افضل مقام پر بھی نذر پوری کی جا سکتی ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3314