اس سند سے بھی جابر رضی اللہ عنہ سے یہی حدیث مروی ہے، ابوداؤد کہتے ہیں: عثمان کی روایت میں یہ بھی ہے کہ اس میں کوئی زیادتی کرنے سے (بھی منع فرماتے تھے)۔ سلیمان بن موسیٰ کی روایت میں ہے: ”یا اس پر کچھ لکھنے سے ۱؎“ مسدد نے اپنی روایت میں: «أو يزاد عليه» کا ذکر نہیں کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مسدد کی روایت میں مجھے حرف «وأن» کا پتہ نہ لگا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجَنَائِزِ/حدیث: 3226]
وضاحت: ۱؎: قبر پر لکھنے سے مراد وہ کتبہ ہے، جو بعض لوگ قبر پر لگاتے ہیں، اور جس میں میت کے اوصاف اور تاریخ وفات درج کئے جاتے ہیں، اور بعض لوگوں نے کہا کہ مراد اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لکھنا ہے یا قرآن مجید کی آیتیں وغیرہ لکھنا ہے، کیونکہ بسا اوقات کوئی جانور اس پر پاخانہ یا پیشاب وغیرہ کر دیتے ہیں جس سے ان چیزوں کا استخفاف لازم آتا ہے۔
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3226
فوائد ومسائل: قبر پرمیت کے نام ونسب یا اس کی مدح ثنا کا کتبہ لگانا یا اللہ رسول کا نام یا قرآن لکھنا سبھی ناجائز ہے۔ البتہ نشاندہی کےلئے کوئی مناسب نشان لگادیا جائے تو جائز ہے۔ جیسے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر پرایک پتھر رکھا تھا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3226