عباد بن عبداللہ بن زبیر کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہتے سنا کہ جب لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دینے کا ارادہ کیا تو کہنے لگے: قسم اللہ کی! ہمیں نہیں معلوم کہ ہم جس طرح اپنے مردوں کے کپڑے اتارتے ہیں آپ کے بھی اتار دیں، یا اسے آپ کے بدن پر رہنے دیں اور اوپر سے غسل دے دیں، تو جب لوگوں میں اختلاف ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر نیند طاری کر دی یہاں تک کہ ان میں سے کوئی آدمی ایسا نہیں تھا جس کی ٹھڈی اس کے سینہ سے نہ لگ گئی ہو، اس وقت گھر کے ایک گوشے سے کسی آواز دینے والے کی آواز آئی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے اپنے پہنے ہوئے کپڑوں ہی میں غسل دو، آواز دینے والا کون تھا کوئی بھی نہ جان سکا، (یہ سن کر) لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اٹھ کر آئے اور آپ کو کرتے کے اوپر سے غسل دیا لوگ قمیص کے اوپر سے پانی ڈالتے تھے اور قمیص سمیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم مبارک ملتے تھے نہ کہ اپنے ہاتھوں سے۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی تھیں: اگر مجھے پہلے یاد آ جاتا جو بعد میں یاد آیا، تو آپ کی بیویاں ہی آپ کو غسل دیتیں۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجَنَائِزِ/حدیث: 3141]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/الجنائز 9 (1464)، (تحفة الأشراف: 16180)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/267) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (5948) أخرجه ابن ماجه (1464 وسنده حسن)
لما أرادوا غسل النبي قالوا والله ما ندري أنجرد رسول الله من ثيابه كما نجرد موتانا أم نغسله وعليه ثيابه فلما اختلفوا ألقى الله عليهم النوم حتى ما منهم رجل إلا وذقنه في صدره ثم كلمهم مكلم من ناحية البيت لا يدرون من هو أن اغسلوا النبي وعليه ثيابه فقاموا إلى
لما ارادوا غسل رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قالوا: والله ما ندري نجرد رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم من ثيابه كما نجرد موتانا ام نغسله وعليه ثيابه؟
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3141
فوائد ومسائل: 1۔ میت کو غسل دیتے ہوئے بالکل عریاںکرنا جائز نہیں بلکہ سترہ عورت (پردے والی چیزوں کو چھپانے) کا اہتمام کرنا واجب ہے۔
2۔ شوہر بیوی کو یا بیوی شوہرکو غسل دے تو جائز ہے۔ جیسے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غسل دیا تھا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3141
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 435
´صحابہ کرام رضی اللہ عنہ پر غنودگی کی سی کیفیت طاری ہونا` ”. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دینے کا ارادہ کیا تو انہوں نے کہا اللہ کی قسم! ہمیں علم نہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے اتاریں جس طرح ہم اپنے مرنے والوں کے کپڑے اتارتے ہیں یا نہ اتاریں؟ . . .“[بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 435]
لغوی تشریح: «مَانَذرِي» ہمیں معلوم نہیں۔ «نُجَرَّدُ» تجرید سے ماخوذ ہے۔ بدن سے کپڑے اتارنا۔ مصنف رحمہ اللہ نے اس حدیث کا ابتدائی حصہ نقل کرنے پر اکتفا کیا ہے۔ مکمل حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ اسی تذبذب میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ پر غنودگی کی سی کیفیت طاری ہو گئی۔ اسی حالت میں انہوں نے کسی کہنے والے سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کپڑوں سمیت غسل دو، لہٰذا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ کو بغیر کپڑے اتارے غسل دیا۔ یہ صحابہ رضی اللہ عنہ کا اپنا تردد و تذبذب تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چونکہ دیگر مخلوق پر شرف و بزرگی حاصل ہے، اس لیے آپ کے کپڑے اتاریں یا نہ اتاریں، ورنہ اس حدیث میں دلیل ہے کہ ان کے ہاں میت کے کپڑے اتار کر غسل دینا بغیر کسی شک و ریب کے مشروع تھا، البتہ قابل ستر اعضاء کی پردہ پوشی واجب ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 435