ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ان کی موت کا وقت قریب آیا تو انہوں نے نئے کپڑے منگوا کر پہنے اور کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”مردہ اپنے انہیں کپڑوں میں (قیامت میں) اٹھایا جائے گا جن میں وہ مرے گا ۱؎“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجَنَائِزِ/حدیث: 3114]
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3114
فوائد ومسائل: مومن کا امتیازی وصف ہے۔ کہ وہمیشہ پاک صاف رہتا ہے۔ اور اللہ عزوجل بھی (متطهرين) سے محبت رکھتا ہے۔ تو چاہیے کہ آخرت کے سفر میں جس میں کہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات ہونے والی ہے۔ مسلمان کا جسم اور لباس خوب عمدہ اور پاک صاف ہو خیال رہے کہ لوگ محشر میں ابتداءً بے لباس اٹھائے جایئں گے۔ اور پھر سب سے پہلے حضرت ابراہیم ؑ اور بعد ازان محمد رسول اللہ ﷺ کو لباس دیا جائے گا۔ اور ان کے بعد دیگر مومنین کو تو جس نے جس قسم کا لباس اختیار کیا ہوگا۔ اسے اسی قسم کا لباس دے دیا جائے گا۔ مگر لباس التقویٰ ہی سب سے بڑھ کر ہے۔ اس کے بغیر ظاہری لباس لغو بے معنی ہیں۔ اور عربی محاورہ میں (طاهر الثوب) پاک صاف کپڑوں والا ایسےآدمی کو کہا جاتا ہے جو اپنے اخلاق وکردار میں صاف ستھرا ہو اور اس کے برعکس کو (دنس الثوب) میلے کچیلے کپڑوں والا سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یعنی اس کا اخلاق وکردار گندا اور میلا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3114