عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے سال ۱؎ عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ ابوسفیان بن حرب کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے وہ مرالظہران ۲؎ میں مسلمان ہو گئے، اس وقت عباس رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! ابوسفیان ایک ایسے شخص ہیں جو فخر اور نمود و نمائش کو پسند کرتے ہیں، تو آپ اگر ان کے لیے کوئی چیز کر دیتے (جس سے ان کے اس جذبہ کو تسکین ہوتی تو اچھا ہوتا)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں (یعنی ٹھیک ہے میں ایسا کر دیتا ہوں) جو شخص ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو جائے تو وہ مامون ہے، اور جو شخص اپنا دروازہ بند کر لے وہ بھی مامون ہے“(ہم اسے نہیں ماریں گے)۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ/حدیث: 3021]
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3021
فوائد ومسائل: ذوالقعدہ 6 ہجری میں حدیبیہ کے مقام پر مسلمانوں اور قریش مکہ کے درمیان یہ معاہدہ ہوا تھا۔ کہ دس سال تک فریقین جنگ بند رکھیں گے۔ اس عرصے میں لوگ ہرطرح سے امن میں رہیں گے۔ اور کوئی کسی پر ہاتھ نہیں اٹھائے گا۔ مگر بنوبکر (حلیف قریش) نے بنو خزاعہ (حلیف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) پر حملہ کیا۔ جس میں قریشیوں نے در پردہ اپنے حلیفوں کی بھر پور مدد کی اور مسلمانوں کے حلیف قبیلہ کو قتل کیا گیا۔ اور کئی آدمی تو حرم کے اندرقتل کئے گئے۔ اس طرح یہ معاہدہ ٹوٹ گیا۔ تب مسلمانوں نے بہت اچھی حکمت عملی اپنا کر مکہ فتح کرلیا۔ اور پھر پورے جزیرۃ العرب پر اسلام کا پھریرا لہرانے لگا۔ یہ واقعہ 8 ہجری کا ہے۔ (جس کی تفصیل الرحیق المختوم علامہ صفی الرحمٰن مبارک پوری اور سیرت کی دیگر کتب میں دقت نظر سے مطالعہ کا لائق ہے۔ )
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3021
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3022
´فتح مکہ کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرالظہران میں (فتح مکہ کے لیے آنے والے مبارک لشکر کے ساتھ) پڑاؤ کیا، عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے (اپنے جی میں) کہا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بزور مکہ میں داخل ہوئے اور قریش نے آپ کے مکہ میں داخل ہونے سے پہلے حاضر ہو کر امان حاصل نہ کر لی تو قریش تباہ ہو جائیں گے، پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خچر پر سوار ہو کر نکلا، میں نے (اپنے جی) میں کہا: شاید کوئی ضرورت مند اپنی ضرورت سے مکہ جاتا ہوا مل جائے (تو میں اسے بتا دوں) اور وہ جا کر اہل مکہ کو آپ صلی اللہ علیہ و۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 3022]
فوائد ومسائل: 1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے وسعت ظرف بلند نگاہی اور اشاعت اسلام کے عظیم مقصد کے پیش نظر ابو سفیان کی گزشتہ تمام زیادتیاں فراموش کردیں۔ بلکہ ان کا اسلام قبول فرمایا بلکہ اعزاز بھی دیا۔ قائد وہی کامیاب ہے جو اپنے لوگوں سے ان کے مزاج کے مطابق مشن کی تکمیل کےلئے کام لے۔
2۔ اسلامی تعلیمات میں عمومی طور پر تواضع انکساری۔ اور گمنامی کی مدح اور ترغیب ہے۔ مگر کچھ طبیعتیں ا س کے بالمقابل دوسری صفات کی حامل ہوتی ہیں جو اگر اسلام اور مسلمانوں کےلئے استعمال ہوں تو بہت خوب ہے۔ چنانچہ حضرت ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ صفات اسلام اور مسلمانوں کے حق میں بہت مفید ثابت ہویئں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3022