عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے خمس کا خمس (پانچویں حصہ کا پانچواں حصہ) دیا، تو میں اسے اس کے خرچ کے مد میں صرف کرتا رہا، جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ رہے اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما زندہ رہے پھر (عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں) ان کے پاس مال آیا تو انہوں نے مجھے بلایا اور کہا: اس کو لے لو، میں نے کہا: میں نہیں لینا چاہتا، انہوں نے کہا: لے لو تم اس کے زیادہ حقدار ہو، میں نے کہا: اب ہمیں اس مال کی حاجت نہیں رہی (ہمیں اللہ نے اس سے بے نیاز کر دیا ہے) تو انہوں نے اسے بیت المال میں داخل کر دیا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ/حدیث: 2983]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 10224) (ضعیف الإسناد)» (اس کے راوی ابوجعفر رازی ضعیف ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف قلت : السند ظاهره الحسن و صححه الحاكم والذهبي (2/ 128) ولكن فيه علة قادحة،قال الدارقطني: ’’ و مطرف لم يسمع من ابن أبي ليلي ‘‘ (العلل الواردة 3/ 280 مسئلة 405) فالسند منقطع انوار الصحيفه، صفحه نمبر 108
قسمته حياة رسول الله ثم ولانيه أبو بكر حتى إذا كانت آخر سنة من سني عمر فإنه أتاه مال كثير فعزل حقنا ثم أرسل إلي فقلت بنا عنه العام غنى وبالمسلمين إليه حاجة فاردده عليهم فرده عليهم ثم لم يدعني إليه أحد بعد عم
ولاني رسول الله صلةى الله عليه وسلم خمس الخمس فوضعته مواضعه حياة رسول الله وحياة أبي بكر وحياة عمر فأتي بمال فدعاني فقال خذه فقلت لا أريده قال خذه فأنتم أحق به قلت قد استغنينا عنه فجعله في بيت المال