ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”اللہ نے عمر کی زبان پر حق رکھ دیا ہے وہ (جب بولتے ہیں) حق ہی بولتے ہیں“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ/حدیث: 2962]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/المقدمة 11 (108)، (تحفة الأشراف: 11973)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/145، 165، 177) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مشكوة المصابيح (6043) أخرجه ابن ماجه (108) محمد بن إسحاق صرح بالسماع عند يعقوب الفارسي في المعرفة والتاريخ (1/461) وللحديث شواھد كثيرة جدًا
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2962
فوائد ومسائل: اس عظیم ترین مدح اور ثناء کے باوجود حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ معصوم عن الخطا نہیں ہیں۔ جہاں کہیں محسوس ہوا کہ ان کا قول وفعل قرآن وسنت کے مطابق نہیں ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے ان سے اختلاف کیا۔ غیر مشروط اتفاق اور اطاعت کے لائق صرف محمد ر سول اللہ صلی الله عليه وسلم ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2962
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث108
´عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے مناقب و فضائل۔` ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”بیشک اللہ تعالیٰ نے عمر کی زبان پر حق رکھ دیا ہے، وہ حق ہی بولتے ہیں۔“[سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 108]
اردو حاشہ: (1) یہ صد یقین کی شان ہے کہ ان کی طبیعت حق سے اس قدر مانوس اور باطل سے اس قدر دور ہو جاتی ہے کہ ان کے لیے غلط بات کہنا یا غلط کام کرنا ممکن نہیں رہتا۔ ویسے بھی مومن جھوٹ سے پرہیز کرتا ہے۔ لیکن اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ معصوم عن الخطاء ہو جاتے ہیں۔ کسی بات میں غلط فہمی ہو جانا اور بات ہے اور جان بوجھ کر غلط کام کرنا بالکل مختلف چیز ہے۔ معصوم صرف پیغمبر ہوتے ہیں کیونکہ انہیں وحی کی رہنمائی حاصل ہوتی ہے، ان سے اگر کوئی خلاف اولیٰ کام ہو جائے تو فورا متنبہ کر دیا جاتا ہے جبکہ امتی کو یہ چیز حاصل نہیں ہوتی۔
(2) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زندگی میں متعدد ایسے واقعات پیش آئے ہیں جب انہوں نے اپنی رائے اور فہم کے مطابق کوئی بات کی، تو اللہ تعالیٰ کا حکم ھی اسی کے مطابق نازل ہوا۔ پردے کا حکم، جنگ بدر کے قیدیوں کا مسئلہ، مقام باراہیم کے نزدیک نماز، رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبی کے جنازے کا مسئلہ وغیرہ مشہور مثالیں ہیں۔ دیکھیے: (سنن الکبریٰ للبیہقی: 88/7) گویا یہ اصابت رائے اللہ کا خصوصی انعام اور فضل تھا جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 108