سلیم بن مطیر کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا کہ وہ حج کرنے کے ارادے سے نکلے، جب مقام سویدا پر پہنچے تو انہیں ایک (بوڑھا) شخص ملا، لگتا تھا کہ وہ دوا اور رسوت ۱؎ کی تلاش میں نکلا ہے، وہ کہنے لگا: مجھے ایک ایسے شخص نے خبر دی ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حجۃ الوداع میں اس حال میں سنا کہ آپ لوگوں کو نصیحت کر رہے تھے، انہیں نیکی کا حکم دے رہے تھے اور بری باتوں سے روک رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگو! (امام و حاکم کے) عطیہ کو لے لو جب تک کہ وہ عطیہ رہے ۲؎، اور پھر جب قریش ملک و اقتدار کے لیے لڑنے لگیں، اور عطیہ (بخشش) دین کے بدلے ۳؎ میں ملنے لگے تو اسے چھوڑ دو“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اس روایت کو ابن مبارک نے محمد بن یسار سے انہوں نے سلیم بن مطیر سے روایت کیا ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ/حدیث: 2958]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 3546) (ضعیف)» (اس کی سند میں ضعیف اور مجہول راوی ہیں)
وضاحت: ۱؎: ایک کڑوی دوا جو اکثر آنکھوں اور پھنسیوں کی دوا میں استعمال ہوتی ہے۔ ۲؎: یعنی شریعت کے مطابق وہ مال حاصل کیا گیا ہو اور شریعت کے مطابق تقسیم بھی کیا گیا ہو۔ ۳؎: یعنی حاکم عطیہ دے کر تم سے کوئی ناجائز کام کرانا چاہتا ہو۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سليم بن مطير : لين الحديث وأبوه مجهول الحال(تق : 2529،6715) والرجل مجهول انوار الصحيفه، صفحه نمبر 107