ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ جب کسی حاکم کی بھلائی چاہتا ہے تو اسے سچا وزیر عنایت فرماتا ہے، اگر وہ بھول جاتا ہے تو وہ اسے یاد دلاتا ہے، اور اگر اسے یاد رہتا ہے تو وہ اس کی مدد کرتا ہے، اور جب اللہ کسی حاکم کی بھلائی نہیں چاہتا ہے تو اس کو برا وزیر دے دیتا ہے، اگر وہ بھول جاتا ہے تو وہ یاد نہیں دلاتا، اور اگر یاد رکھتا ہے تو وہ اس کی مدد نہیں کرتا“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ/حدیث: 2932]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 17478)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/البیعة 33 (4209)، مسند احمد (6/70) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث ایک اصل عظیم ہے، اکثر بادشاہوں کی حکومتیں اسی وجہ سے تباہ ہوئی ہیں کہ ان کے وزیر اور مشیر نالائق اور نکمے تھے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مشكوة المصابيح (3707) وله شاھد قوي عند البزار (كشف الأستار 2/234)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2932
فوائد ومسائل: اسلام نے امور مملکت کو چلانے کےلئے تدریجا ایک ایسا نظام بنایا جو انتظام اور انصرام کے حوالے سے ایک مثالی نمونہ تھا۔ بڑی ذمہ داریوں کی ادایئگی میں مناسب افراد کو جو صلاحیت اور اخلاص میں بہترین ہوں۔ باقاعدہ شامل کر کے ہی انتظامی معاملات صحیح طور پرچلائے جا سکتے ہیں۔ آپ ﷺ نے سرکاری مشینری کے لیے اخلاص اور خیر خواہی اور زمہ داری کو بنیادی خصوصیت قرار دیا ہے۔ جبکہ غیر ذمہ داری فرائض منصبی سے غفلت اور عدم خیر خواہی کو تباہی کا سبب بتایا ہے۔ اس لئے حاکم کےلئے ضروری ہے کہ اپنے لئے وزیر منتخب کرے۔ مگر ایسے جو ایمان وعمل اور دیانت وتقویٰ میں معتبر ہوں۔ اور ان کے حاصل ہونے پر اللہ کا شکر کرنا چاہیے۔ اور بُرے مصاحبوں سے بچنا اوراللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔ تاریخ شاہد ہے کہ حکومتیں وہی کامران وکامیاب رہی ہیں۔ جن میں وزیر یا مشیر دانا بینا اور امین تھے۔ اور جن حکومتوں میں وزیر مشیر غبی اور خائن ہوئے وہ عبرت کا نشان بنیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2932
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4209
´حکمراں کے وزیر کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جب کوئی کسی کام کا ذمہ دار ہو جائے پھر اللہ اس سے خیر کا ارادہ کرے تو اس کے لیے ایسا صالح وزیر بنا دیتا ہے کہ اگر وہ بھول جائے تو وہ اسے یاد دلاتا ہے اور اگر اسے یاد ہو تو اس کی مدد کرتا ہے۔“[سنن نسائي/كتاب البيعة/حدیث: 4209]
اردو حاشہ: (1) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت اس طرح ہے کہ امام اور حاکم کے لیے اچھا، لائق و مخلص وزیر بنانا مشروع ہے تاکہ امارت کے اہم معاملات میں وہ امیر کا معاون و مددگار بنے اور امیر سے امارت کا کچھ بوجھ ہلکا کرے۔ (2) بعض امراء و حکام پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم اور اس کی خصوصی عنایت و رحمت ہوتی ہے کہ وہ ان کو سچے، سُچے، خالص اور کھرے وزیر عطا فرماتا ہے جو اس کے مخلص معاون اور ہمدرد و خیر خواہ ہوتے ہیں۔ امیر و امام اگر کوئی اہم بات بھول جائے تو وہ اسے یاد کراتے ہیں، اور اگر اسے یاد ہو تو اس سلسلے میں اس کا تعاون کرتے ہیں۔ (3) امیر و حاکم کو مطلق العنان قطعاً نہیں ہونا چاہیے کہ بغیر کسی کے صلاح و مشورے کے من مانے فیصلے کرے، محض اپنی رائے اور پسند کو ترجیح دے، اپنے آپ کو عقل کل سمجھے اور اپنی مرضی کی سیاست و سیادت اور حکمرانی کرے۔ ایسا کرنے سے رعایا کے بہت سے حقوق ضائع اور پامال ہوتے ہیں، بلکہ امیر و حاکم کو چاہیے کہ امین و دیانت دار، دین پر کاربند، پختہ فکر اور باعمل صاحب بصیرت و صاحب کردار وزیر و مشیر اپنائے جو اچھے مشوروں اور مثبت صلاحیتوں سے اس کی راہنمائی کریں۔ یہ معاملہ اس قدر اہم اور سنجیدہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ جو تمام تر اعلیٰ و افضل انسانی کمالات کے حامل، ذہانت و فطانت اور شرافت و نجابت کے بادشاہ تھے، نیز آپ کو وحیٔ الٰہی کی تائید بھی حاصل تھی، اس کے باوجود آپﷺ کو ﴿وَشَاوِرْهُمْ فِي الأمْرِ﴾ کے امر سے حکماً مشاورت کا پابند کر دیا گیا۔ اس کے بعد تو اس مسئلے کی اہمیت کی بابت کسی مزید بات کی گنجائش ہی باقی نہیں رہی۔ (4)”وزیر“ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنیٰ بوجھ اٹھانے والے کے ہیں۔ مراد اس سے ساتھی اور معاون ہے۔ اچھا ساتھی اور معاون بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے۔ صرف حاکم کے لیے ہی نہیں بلکہ ہر ذمہ دار کے لیے حتیٰ کہ خاوند کے لیے اچھی بیوی بھی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4209