عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو دین والے (یعنی مسلمان اور کافر) کبھی ایک دوسرے کے وارث نہیں ہو سکتے“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْفَرَائِضِ/حدیث: 2911]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 8669)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الفرائض 16 (2109)، سنن ابن ماجہ/الفرائض 6 (2732)، مسند احمد (2/178، 195) (حسن صحیح)»
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (3046)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2911
فوائد ومسائل: فائدہ: اس سے مراد مسلمان اور کافر ہیں۔ جبکہ کفار اپنے مختلف دینوں پر ہوتے ہوئے بھی ایک ملت ہیں، اس لئے ان کی آپس میں وراثت چلتی ہے۔ جبکہ امام زہری ابن ابی لیلیٰ اور احمد بن حنبل کے اقوال ہیں کہ یہودی نصرانی کا وارث نہیں۔ مجوسی یہودی کا نہیں۔ وغیرہ۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2911
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2731
´مسلمان اور کافر و مشرک ایک دوسرے کے وارث نہ ہوں گے۔` عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو مذہب والے (جیسے کافر اور مسلمان) ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوں گے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الفرائض/حدیث: 2731]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) دو مختلف ملتوں (قوموں) سے مراد، ملت اسلام اورملت کفر ہے۔
(2) ایک غیرمسلم دوسرے غیر مسلم کا وارث ہوتا ہے، خواہ ان کا مذہب ایک دوسرے سے مختلف ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2731