براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! «يستفتونك في الكلالة» میں کلالہ سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا: آیت «صيف»۱؎ تمہارے لیے کافی ہے۔ ابوبکر کہتے ہیں: میں نے ابواسحاق سے کہا: کلالہ وہی ہے نا جو نہ اولاد چھوڑے نہ والد؟ انہوں نے کہا: ہاں، لوگوں نے ایسا ہی سمجھا ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْفَرَائِضِ/حدیث: 2889]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الفرائض 2 عن عمر (1617)، سنن الترمذی/تفسیر سورة النساء 27 (3042)، (تحفة الأشراف: 1906)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/293، 295، 301) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: سورہ نساء کا آخری حصہ گرمی کے زمانہ میں نازل ہوا ہے اس لئے اسے آیت «صيف» کہا جاتا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن وللحديث شواھد عند مسلم (1617) وانظر الحديث السابق (2888)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2889
فوائد ومسائل: 1۔ (کلالة) کا ذکر سورہ نساء میں دو جگہ ہے۔ ایک آیت نمبر 12 میں (وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ)(النساء12/4) یہ آیت سردیوں میں نازل ہوئی، جبکہ سورہ نساء کی آیت جس کا ذکراوپر کی احادیث میں ہوا ہے، گرمیوں میں نازل ہوئی۔ سورہ نساء کی آیت کریمہ 176) میں کلالہ اسے کہا گیا ہے کہ جس کی اولاد نہ ہو۔ اور بہن بھائی موجود ہوں۔ جبکہ اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کلالہ اسے کہتے ہیں۔ کہ جس کی اولاد نہ ہو اور والد بھی نہ ہو۔ تو یہ اضافہ حدیث جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ماخوذ ہے کہ جب ان کے بارے میں یہ آیت اتری نہ ان کی اولاد تھی نہ ان کے والد اور یہ مثال ہے کہ احادیث قرآن مجید کی توضیح وتبیین کرتی اور بعض اوقات اس پراضافہ بھی بیان کرتی ہیں۔ (خطابی)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2889
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3042
´سورۃ نساء سے بعض آیات کی تفسیر۔` براء بن عازب رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: اللہ کے رسول! «يستفتونك قل الله يفتيكم في الكلالة» کی تفسیر کیا ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے سلسلہ میں تو تمہارے لیے آیت صیف ۱؎ کافی ہو گی۔“[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3042]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: آیت صیف گرمی کے موسم میں حجۃ الواداع کے راستہ میں نازل ہوئی۔ اور آیت صیف کے نام سے مشہور ہوئی۔ پوری آیت یوں ہے: ﴿يَسْتَفْتُونَكَ قُلْ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلالَةِ إِنِ امْرأٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ ــ إلى ــ فَلِلذَّكَرِ مِثَلُ حَظِّ الأُنْثَيَيْنِ﴾ تک (لوگ تجھ سے فتویٰ پوچھتے ہیں کہہ دو اللہ تمہیں کلالہ کے بارے میں بتاتا ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3042