صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 7309 کا باب: «بَابُ مَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسْأَلُ مِمَّا لَمْ يُنْزَلْ عَلَيْهِ الْوَحْيُ فَيَقُولُ: «لاَ أَدْرِي»:» باب اور حدیث میں مناسبت: امام بخاری رحمہ اللہ نے جو ترجمۃ الباب قائم فرمایا ہے یہ باب کئی فوائد پر مشتمل ہے، اور آپ رحمہ اللہ نے باب کے ذریعے جو واضح کرنا چاہا وہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب تک کسی مسئلے پر وحی کا نزول نہ ہوتا تو رائے نہ دیتے اور نہ ہی قیاس کرتے، اس کی جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیتے کہ
«لا أدري» کہ
”میں نہیں جانتا۔
“ تحت الباب سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے حدیث نقل فرمائی، جو تعلیقاً ذکر فرمائی ہے اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روح کی بابت سوال کیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے بظاہر باب سے مناسبت ظاہر ہے، اس کے بعد جو حدیث سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے نقل فرمائی ہے اس کا باب سے مطابقت ہونا معلوم نہیں ہوتا، کیوں کہ باب میں
«لا أدري» کا ذکر ہے جبکہ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ الفاظ وارد نہیں ہیں، اسی وجہ سے علامہ کرمانی رحمہ اللہ یہ اعتراض کر بیٹھے کہ:
«وقال الكرماني فى قوله فى الترجمة لا أدري حزازة إذ ليس فى الحديث ما يدل عليه.» [فتح الباري لابن حجر: 248/14]
”کرمانی نے کہا کہ ترجمۃ الباب میں ان کے «لا أدري» لکھنے میں حزازت یعنی بےاعتدالی ہے کیوں کہ حدیث میں اس (الفاظ) پر کوئی چیز دلالت نہیں کرتی۔“
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے راقم ہیں:
«والذى يظهر أنه أشار فى الترجمة إلى ما ورد فى ذالك ولكنه لم يثبت عنده من شيئي على شرطه.» ”ظاہر یہ ہے کہ ترجمۃ الباب میں اس بابت وارد کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن اپنی شرط پر نہ ہونے کی وجہ سے اس میں کچھ نقل نہیں کیا۔
“ کتب احادیث میں ایسی احادیث موجود ہیں جن میں یہ الفاظ
«لا أدري» کے وارد ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ان احادیث کو نقل فرماتے ہیں، مثلاً آپ لکھتے ہیں:
”اس بابت متعدد روایات موجود ہیں
(مثلاً) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور پوچھا:
«أى البقاع خير» یعنی کون سا علاقہ بہتر ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لا أدري» پھر حضرت جبریل علیہ السلام سے ملاقات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی سوال ان کے آگے رکھا تو انہوں نے بھی یہی کہا:
«لا أدري»، تو فرمایا:
«سل ربك فانتقض جبريل انتقاضة» ۔
“ [فتح الباري لابن حجر: 249/14] لہٰذا یہ بات واضح ہوئی کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے
«لا أدري» کے الفاظ تحت الباب نقل نہیں فرمائے بلکہ اس قسم کے الفاظ دیگر احادیث میں وارد ہیں، مگر آپ نے صرف اشارہ کر دیا باب کے ذریعے کیوں کہ وہ احادیث آپ کی شرط پر نہ تھیں۔
اس بات کو بھی مدنظر رکھا جائے کہ امام بخاری رحمہ اللہ مطلق اجتہاد اور قیاس کی نفی نہیں فرما رہے بلکہ آپ رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان پیچیدہ سوالات پر خاموش رہتے جس کے بارے میں شریعت میں اصول نہ تھے، اگر کسی سوال کے بارے میں شریعت میں پہلے سے ہی اصول موجود ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوال کو اس اصول پر قیاس فرماتے
( «كما لا يخفى على أهل العلم») چنانچہ اس اصولی گفتگو کو کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مہلب رحمہ اللہ کا قول نقل فرمایا ہے، آپ لکھتے ہیں:
«وقد نقل ابن بطال عن المهلب ما معناه إنما سكت النبى صلى الله عليه وسلم فى أشياء معضلة ليست لها أصول فى الشريعة، فلا بد فيها من اطلاع الوحي و إلا فقد شرع صلى الله عليه وسلم لأمته القياس، و أعلمهم كيفية الاستنباط فيما لا نص فيه، حيث قال للنبي سألته هل تحج عن أمها: فالله أحق بالقضاء، و هذا هو القياس فى لغة العرب.» [فتح الباري لابن حجر: 248/14] ”ابن بطال نے مہلب رحمہ اللہ سے نقل کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دراصل ان پیچیدہ اشیاء کی بابت سوال ہونے پر خاموشی اختیار فرماتے جن کے لیے شریعت میں اصول نہ تھے تو ان میں وحی کا انتظار ضروری تھا، وگرنہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے لیے قیاس مشروع کیا ہے اور انہیں کیفیت استنباط کی تعلیم دی ہے ان امور میں جن میں نص نہ ہو، مثلاً اس خاتون سے فرمایا جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھا کہ کیا وہ اپنی والدہ کی طرف سے حج بدل کر سکتی ہے؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا:
( «فالله أحق بالقضاء») یہی لغت عرب میں قیاس ہے۔
“ علامہ مہلب رحمہ اللہ کی اس تفصیلی گفتگو سے یہ پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک خاموش رہتے جب تک وحی نازل نہ ہوتی، اور یہ ان پیچیدہ سوالات پر مبنی ہوتا جس کے بارے میں شریعت نے کوئی حکم نہیں اتارا ہوتا، اگر کسی مسئلے پر شریعت نے کوئی حکم نازل کر دیا ہوتا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر قیاس فرماتے تھے، اس کی امثلہ کتب احادیث میں کثیر ہیں۔