ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”کہ اللہ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا ہے ۱؎ لہٰذا اب وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْوَصَايَا/حدیث: 2870]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الوصایا 5 (2120)، سنن ابن ماجہ/الوصایا 6 (2713)، (تحفة الأشراف:4882)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/267)، ویأتي ہذا الحدیث برقم: 3565 (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: آیت میراث نازل فرما کر اس کا حصہ مقرر کر دیا ہے۔
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مشكوة المصابيح (3073) أخرجه الترمذي (2120 وسنده حسن، إسماعيل بن عياش صرح بالسماع عنده) ورواه ابن ماجه (2713 وسنده حسن)
الله قد أعطى لكل ذي حق حقه لا وصية لوارث الولد للفراش للعاهر الحجر وحسابهم على الله من ادعى إلى غير أبيه انتمى إلى غير مواليه فعليه لعنة الله التابعة إلى يوم القيامة لا تنفق امرأة من بيت زوجها إلا بإذن زوجها قيل يا رسول الله ولا الطعام قال
الله قد أعطى كل ذي حق حقه لا وصية لوارث لا تنفق المرأة شيئا من بيتها إلا بإذن زوجها فقيل يا رسول الله ولا الطعام قال ذاك أفضل أموالنا العارية مؤداة المنحة مردودة الدين مقضي الزعيم غارم
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2120
´وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں۔` ابوامامہ باہلی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حجۃ الوداع کے سال خطبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”اللہ تعالیٰ نے ہر حق والے کو اس کا حق دے دیا ہے، لہٰذا کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں، لڑکا (ولدالزنا) بستر والے کی طرف منسوب ہو گا (نہ کہ زانی کی طرف)، اور زانی رجم کا مستحق ہے اور ان کا حساب اللہ کے سپرد ہے۔ جس نے اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسری طرف نسبت کی یا اپنے موالی کے علاوہ کی طرف اپنے آپ کو منسوب کیا اس پر قیامت کے دن تک جاری رہنے والی لعنت ہو، کوئی عورت اپنے شوہر کے گھر سے اس کی اجازت کے بغیر خرچ نہ کرے“، عرض کیا گیا: اللہ ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب الوصايا/حدیث: 2120]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: وہ دودھ والا جانور جو کسی کو صرف دودھ سے فائدہ اٹھانے کے لیے دیا جاتاہے۔
2؎: یعنی ضامن نے جس چیز کی ذمہ داری لی ہے، اس کا ذمہ داروہ خود ہوگا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2120
ابوطلحه حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 3565
عورت کو اپنے خاوند کے گھر سے اس کی اجازت کے بغیر مال خرچ نہیں کرنا چاہیے، ابو امامہ الباھلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: «لا تنفق امرأة شيئا من بيت زوجها إلا بإذن زوجها قيل: يا رسول الله ولا الطعام؟ قال ذاك افضل اموالنا» ”عورت اپنے شوہر کے گھر سے اس کی اجازت کے بغیر کوئی چیز خرچ نہ کرے۔ کہا اے اللہ کے رسول اور غلہ بھی نہیں؟ آپ نے فرمایا: وہ تو ہمارے افضل مالوں سے ہے۔“ تخریج: (ابوداؤد (3565) ترمذي (670) ابن ماجه (2398) مسند احمد 5/267 مسند طيالسي (1127) المصنف لعبد الرزاق (16621) التمهيد 1/230 بيهقي 4/193-194 شرح السنة 6/204) معلوم ہوا کہ جب ایسا صدقہ و خیرات جو غلے سے کم قدر و قیمت والا ہو وہ خاوند کی اجازت کے بغیر خرچ نہیں کر سکتی، تو جو غلہ افضل اموال سے ہے وہ کیسے خرچ کر سکتی ہے۔ [تحفة الاحوذي 3/288]
اگر عورت کو معلوم ہو کہ صدقہ و خیرات کرنے سے مرد روکتا نہیں بلکہ پسند کرتا ہے، تو پھر خرچ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اذا تصدقت المراة من بيت زوجها كان لها به اجر وللزوج مثل ذلك وللخازن مثل ذلك ولا ينقص كل واحد منهم من اجر صاحبه شيئا بما كست ولها بما انفقت» ”جب عورت اپنے شوہر کے گھر سے صدقہ کرتی ہے تو اسے اس کا اجر ملتا ہے اور شوہر کو بھی اسی طرح اجر ملتا ہے اور خزانچی کو بھی اس کی مثل اجر ملتا ہے اور ہر ایک دوسرے کے اجر کو کم نہیں کرتا۔ مرد کے لیے اس کی کمائی کا اجر اور عورت کے لیے اس کے خرچ کرنے کا اجر ہے۔“[ترمذي 671 نسائي كبري 2/35]
عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک روایت میں یوں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب عورت شوہر کے گھر سے خوشی کے ساتھ عطیہ دے اور عطیہ میں اسراف کرنے والی نہ ہو اس کے لیے شوہر کی مثل اجر ہے اور عورت کے لیے وہ ہے جو اس نے اچھی نیت کی اور خازن کو بھی اسی کی مثل اجر ہے۔“[ترمذي 672 نسائي كبري 5/379] علامہ مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ اس کی شرح میں رقمطراز ہیں۔ «وهذا محمول على اذن الزوج لها بذلك صريحا او دلالة»[تحفة الاحوذي 3/390] ”یہ عورت کے لیے شوہر کی اجازت پر محمول ہے خواہ یہ اجازت صراحۃ ہو یا دلالۃ۔“ مطلب یہ ہے کہ مرد نے عورت کو واضح طور پر خرچ کرنے کی اجازت دے رکھی ہو یا اس کے عمل سے معلوم ہو کہ یہ عورت کے خرچ کرنے پر وہ ناراض نہیں ہوتا۔
مرقاۃ شرح مشکوٰۃ 4/435 میں یہ قول بھی ہے کہ یہ معاملہ اہل حجاز کی عادت کے موافق ہے۔ ان کی عادت تھی کہ انہوں نے اپنی بیویوں اور نوکروں کو اجازت دے رکھی تھی کہ وہ مہمان نوازی کریں۔ سائل، مساکین اور پڑوسیوں کو کھلائیں، پلائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اس اچھی عادت اور عمدہ خصلت پر شوق دلایا ہے۔
لہٰذا عورت کو شوہر کی طرف سے جب اجازت ہو، خواہ یہ اجازت وضاحت کے ساتھ ہو یا کسی اور طریقے سے تو اسے خرچ کرنا چاہیے۔ مرد کی طرح عورت کو بھی اجر ملے گا۔ مرد کو کمائی کرنے کی وجہ سے اور عورت کو خرچ کرنے کی وجہ سے۔ ہمارے گھروں میں مرد حضرات کی عادت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے اور خواتین اللہ کی راہ میں عطیات و صدقات خرچ کرتی رہتی ہیں اور شوہر اس پر ناراض نہیں ہوتے۔ بہرکیف عورت کو شوہر کی اجازت و رضا مندی حاصل کر لینی چاہیے۔ «والله اعلم بالصواب» https: //urdufatwa.com/view/1/21459