الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابي داود
كِتَاب الصَّيْدِ
کتاب: شکار کے احکام و مسائل
4. باب فِي اتِّبَاعِ الصَّيْدِ
4. باب: شکار کا پیچھا کرنا کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 2861
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ الْخَيَّاطُ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِذَا رَمَيْتَ الصَّيْدَ فَأَدْرَكْتَهُ بَعْدَ ثَلَاثِ لَيَالٍ وَسَهْمُكَ فِيهِ فَكُلْهُ مَا لَمْ يُنْتِنْ".
ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم کسی شکار کو تیر مارو اور تین دن بعد اس جانور کو اس طرح پاؤ کہ تمہارا تیر اس میں موجود ہو تو جب تک کہ اس میں سے بدبو پیدا نہ ہو اسے کھاؤ ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الصَّيْدِ/حدیث: 2861]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الصید 2 (1931)، سنن النسائی/الصید 20 (4308)، (تحفة الأشراف: 11863)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/194) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: تیر کے موجود رہنے کی شرط اس لئے ہے کہ شکاری کو یہ یقین ہو جائے کہ شکار کی موت کا سبب شکاری کا تیر ہے نہ کہ کوئی دوسری چیز اس کی موت کا سبب بنی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (1931)

   سنن النسائى الصغرىالذي يدرك صيده بعد ثلاث فليأكله إلا أن ينتن
   صحيح مسلمإذا رميت بسهمك فغاب عنك فأدركته فكله ما لم ينتن
   صحيح مسلمالذي يدرك صيده بعد ثلاث فكله ما لم ينتن
   جامع الترمذيإذا أرسلت كلبك المكلب وذكرت اسم الله فقتل فكل وإن كان غير مكلب فذك وكل وإذا رميت بسهمك وذكرت اسم الله فقتل فكل
   جامع الترمذيإذا أرسلت كلبك وذكرت اسم الله عليه فأمسك عليك فكل قلت وإن قتل قال وإن قتل ما ردت عليك قوسك فكل إنا أهل سفر نمر باليهود والنصارى والمجوس فلا نجد غير آنيتهم قال فإن لم تجدوا غيرها فاغسلوها بالماء ثم كلوا فيها واشربوا
   جامع الترمذيإذا أرسلت كلبك المكلب وذكرت اسم الله فقتل فكل وإن كان غير مكلب فذكي فكل إذا رميت بسهمك وذكرت اسم الله فقتل فكل
   سنن أبي داودإذا رميت الصيد فأدركته بعد ثلاث ليال وسهمك فيه فكله ما لم ينتن
   سنن أبي داوديا أبا ثعلبة كل ما ردت عليك قوسك وكلبك
   سنن أبي داودما صدت بكلبك المعلم فاذكر اسم الله وكل وما أصدت بكلبك الذي ليس بمعلم فأدركت ذكاته فكل
   سنن أبي داودإذا أرسلت كلبك وذكرت اسم الله فكل وإن أكل منه وكل ما ردت عليك يداك
   سنن ابن ماجهكل ما ردت عليك قوسك

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2861 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2861  
فوائد ومسائل:
حسب طلب وضرورت شکار کرنا اوراس کی تلاش میں جانا کوئی معیوب نہیں، معیوب یہ ہے کہ انسان اپنے دیگر دینی ودنیاوی فرائض سے غافل ہوجائے۔


کھانے پینے کی چیزوں کا ذائقہ اور بو اس انداز سے بگڑ جائے کہ نقصان دہ ہوسکتی ہیں۔
تو استعمال نہیں کرنی چاہیں۔
ہاں اگر کوئی ضرر واضح نہ ہو تو جائز ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2861   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2852  
´شکار کرنے کا بیان۔`
ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شکاری کتے کے سلسلہ میں فرمایا: جب تم اپنے (شکاری) کتے کو چھوڑو، اور اللہ کا نام لے کر (یعنی بسم اللہ کہہ) کر چھوڑو تو (اس کا شکار) کھاؤ اگرچہ وہ اس میں سے کھا لے ۱؎ اور اپنے ہاتھ سے کیا ہوا شکار کھاؤ ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصيد /حدیث: 2852]
فوائد ومسائل:
اصل مسئلہ وہی ہے۔
جو پیچھے کی صحیح احادیث میں گزرا ہے۔
کہ اگر کتے نے شکار میں سے کھایا ہو تو اس کا کھانا جائز نہیں۔
اس لئے بعض علماء نے اس حدیث کو منکر (صحیح احادیث کے خلاف) قرار دیا ہے۔
اور یہی بات زیادہ صحیح ہے۔
اور بعض حضرات اس حدیث کی وجہ سےشکا ر کے کتے کے کھانے کے باوجود اس کی حلت کے قائل ہیں۔
اور بعض نے اس کی یہ تاویل کی ہے۔
کہ شکاری کتے نے پہلے شکار کو پکڑ کر مار ڈالا پھر اس کو مالک کےلئے رکھ چھوڑا اور وہاں سے دور چلا گیا۔
پھر دوباہ واپس آکر کچھ کھا لے تو اس طرح اس کا کھا لینا مضر نہیں۔
مالک کے لئے اس شکار کا کھانا جائز ہے۔
کیونکہ اس نے پہلے تو مالک ہی کےلئے شکار کیا۔
اور اسی کے لئے اسے روکے رکھا اور کھایا اس نے بعد میں ہے اس لئے اس کھانے کا اعتبار نہیں ہوگا۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2852   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2855  
´شکار کرنے کا بیان۔`
ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں سدھائے اور بےسدھائے ہوئے کتوں سے شکار کرتا ہوں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شکار تم سدھائے ہوئے کتے سے کرو اس پر اللہ کا نام لو (یعنی «بِسْمِ اللهِ» کہو) اور کھاؤ، اور جو شکار اپنے غیر سدھائے ہوئے کتے کے ذریعہ کرو اور اس کے ذبح کو پاؤ (یعنی زندہ پاؤ) تو ذبح کر کے کھاؤ (ورنہ نہ کھاؤ کیونکہ وہ کتا جو تربیت یافتہ نہیں ہے تو اس کا مار ڈالنا ذبح کے قائم مقام نہیں ہو سکتا)۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصيد /حدیث: 2855]
فوائد ومسائل:
بن سدھائے ہوئے کتے کا مارا ہوا حلال نہیں۔
خواہ کتے کو بسم اللہ پڑھ کر چھوڑا گیا ہو۔
ہاں اگر اس کو ذبح کرنے کا موقع مل گیا تو ذبح کے بعد اس کا کھانا جائز ہوگا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2855   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2856  
´شکار کرنے کا بیان۔`
ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے عرض کیا: ابوثعلبہ! جس جانور کو تم اپنے تیر و کمان سے یا اپنے کتے سے مارو اسے کھاؤ۔‏‏‏‏ ابن حرب کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ: وہ کتا سدھایا ہوا (شکاری) ہو، اور اپنے ہاتھ سے (یعنی تیر سے) شکار کیا ہوا جانور ہو تو کھاؤ خواہ اس کو ذبح کر سکو یا نہ کر سکو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصيد /حدیث: 2856]
فوائد ومسائل:
چونکہ کتا چھوڑتے ہوئے یا تیرکمان سے پھینکتے ہوئے بسم اللہ پڑھی جاتی ہے۔
تو جو اس طرح سے مر بھی جائے وہ حلال ہے۔
زندہ ملے تو بسم اللہ پڑھ کر ذبح کرلے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2856   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1464  
´کتے کا کون سا شکار کھایا جائے اور کون سا نہ کھایا جائے؟`
ابوثعلبہ خشنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم لوگ شکاری ہیں؟ (شکار کے احکام بتائیے؟) آپ نے فرمایا: جب تم (شکار کے لیے) اپنا کتا چھوڑو اور اس پر اللہ کا نام یعنی بسم اللہ پڑھ لو پھر وہ تمہارے لیے شکار کو روک رکھے تو اسے کھاؤ؟ میں نے کہا: اگرچہ وہ شکار کو مار ڈالے، آپ نے فرمایا: اگرچہ مار ڈالے، میں نے عرض کیا: ہم لوگ تیر انداز ہیں (تو اس کے بارے میں فرمائیے؟) آپ نے فرمایا: تمہارا تیر جو شکار کرے اسے کھاؤ، میں نے عرض کیا: ہم سفر کرنے والے لوگ ہیں، یہود و نصاریٰ اور مجوس کی بستیوں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 1464]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
حدیث کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ اگر دوسرے برتن موجود ہوں تو یہود ونصاریٰ کے برتن دھولینے کے بعد بھی استعمال میں نہ لائے جائیں۔
(واللہ اعلم)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1464   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4985  
حضرت ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب تم اپنا تیر (شکار پر) پھینکو اور شکار تم سے اوجھل ہو جائے، پھر تم اس کو پا لو، تو اسے کھا لو، بشرطیکہ وہ بدبودار نہ ہو۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4985]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
بدبودار چیز کھانا جب تک وہ نقصان کا باعث نہ ہو،
محض طبی طور پر ناپسندیدہ ہونے کی بنا پر مکروہ تنزیہی ہے،
اگر نقصان کی حد تک پہنچ جائے تو پھر جائز نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4985