انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ اسلم کا ایک جوان نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں جہاد کا ارادہ رکھتا ہوں لیکن میرے پاس مال نہیں ہے جس سے میں اس کی تیاری کر سکوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فلاں انصاری کے پاس جاؤ اس نے جہاد کا سامان تیار کیا تھا لیکن بیمار ہو گیا، اس سے جا کر کہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں سلام کہا ہے، اور یہ کہو کہ جو اسباب تم نے جہاد کے لیے تیار کیا تھا وہ مجھے دے دو“، وہ شخص اس انصاری کے پاس آیا اور آ کر اس نے یہی بات کہی، انصاری نے اپنی بیوی سے کہا: جتنا سامان تو نے میرے لیے جمع کیا تھا وہ سب اسے دیدے، اس میں سے کچھ مت رکھنا، اللہ کی قسم اس میں سے کچھ نہیں رکھے گی تو اللہ اس میں برکت دے گا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجِهَادِ/حدیث: 2780]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الإمارة 38 (1894)، (تحفة الأشراف: 324)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/207) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مذکورہ حدیث سے باب پر استدلال اس طرح ہے کہ جب ابتداء میں سامان جہاد مانگنا جائز ہے تو واپسی میں بدرجہ اولیٰ جائز ہونا چاہئے کہ ضرورت اس وقت سخت ہوتی ہے، ابتداء تو اگر آدمی کے پاس زادراہ نہیں ہے تو جہاد واجب کہاں؟۔
ائت فلانا فإنه قد كان تجهز فمرض فأتاه فقال إن رسول الله يقرئك السلام ويقول أعطني الذي تجهزت به قال يا فلانة أعطيه الذي تجهزت به ولا تحبسي عنه شيئا فوالله لا تحبسي منه شيئا فيبارك لك فيه
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2780
فوائد ومسائل: 1۔ چاہیے کہ جو چیز سامان یا مال اللہ کےلئے خاص کر دیا گیا ہو۔ اور انسان اسے اگر خود خرچ نہ کرسکے۔ تو کسی اور کے حوالے کردے۔ بالخصوص جہاد کا سامان اس کے خرچ کردینے میں برکت اور روک لینے میں بے برکتی ہے۔ ایسے مال میں اگر نذر اور وقف کی نیت کی گئی ہوتو خود خرچ کرنا یا کسی کو دے دینا واجب ہے۔ ورنہ مستحب۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2780