´جزیہ اور صلح کا بیان`
سیدنا مسور بن مخرمہ اور مروان رضی اللہ عنہ دونوں سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ کے سال نکلے۔ راوی نے لمبی حدیث بیان کی ہے اور اس میں یہ مذکور ہے کہ یہ وہ (دستاویز) ہے جس پر محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے سہیل بن عمرو سے صلح کی ہے کہ دس سال جنگ بند رہے گی۔ اس عرصہ میں لوگ امن سے رہیں گے اور ان میں سے ہر ایک (جنگ سے) اپنا ہاتھ روکے رکھے گا۔ ابوداؤد اور اس کی اصل بخاری میں ہے اور مسلم نے اس حدیث کا کچھ حصہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور اس میں ہے کہ تم میں سے جو کوئی ہمارے پاس آئے گا اسے ہم واپس نہیں کریں گے اور ہمارا کوئی آدمی تمہارے پاس آ جائے تو تم اسے ہمارے پاس واپس لوٹا دو گے۔ انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! کیا ہم یہ لکھ لیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ” ہاں! جو شخص ہم میں سے ان کے پاس چلا جائے گا اسے اللہ تعالیٰ نے دور کر دیا اور ان میں سے جو ہمارے پاس آئے گا تو اللہ تعالیٰ اس کیلئے ضرور کشائش اور کوئی راستہ نکال دے گا۔“۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 1128»
تخریج: «أخرجه أبوداود، الجهاد، باب في صلح العدو، حديث:2765، وأصله عند البخاري، الشروط، حديث /2731، وحديث أنس: أخرجه مسلم، الجهاد، حديث:1784.»
تشریح:
راویٔ حدیث: «مروان رحمہ اللہ» اس سے مروان بن حکم اموی مراد ہیں۔
ابوعبدالملک کنیت تھی۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے مدینہ منورہ کے گورنر مقرر ہوئے۔
یزید کی وفات اور اس کے بیٹے معاویہ کی خلافت سے علیحدگی کے بعد حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے حریف بن کر مصر وشام پر قابض ہوگئے تھے۔
ان کی وفات دمشق میں ۶۵ہجری میں ہوئی۔
«حضرت سہیل بن عمرو رضی اللہ عنہ» سہیل بن عمرو کا شمار قریش کے سرکردہ شرفاء و رؤسا میں ہوتا تھا۔
ان کے عقلاء اور خطباء میں سے ایک تھے۔
بدر کے روز قید ہوئے۔
اس وقت کافر تھے۔
فتح مکہ کے روز اسلام قبول کیا۔
فتنۂارتداد کے موقع پر قریش ان کی وجہ سے اسلام پر ثابت قدم رہے۔
۴ا ہجری میں یرموک کے موقع پر شہید ہوئے۔
یا ان کی وفات مرج صفر میں یا طاعون عمواس میں ۱۸ ہجری میں ہوئی۔