عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں مال غنیمت کے ایک اونٹ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھائی، پھر جب سلام پھیرا تو اونٹ کے پہلو سے ایک بال لیا، اور فرمایا: ”تمہاری غنیمتوں میں سے میرے لیے اتنا بھی حلال نہیں سوائے خمس کے، اور خمس بھی تمہیں لوٹا دیا جاتا ہے ۱؎“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجِهَادِ/حدیث: 2755]
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امام غنیمت کے مال میں سے سوائے خمس کے کچھ نہیں لے گا، اور خمس بھی جو لے گا وہ تنہا اس کا نہیں ہو گا بلکہ وہ اسے مسلمانوں ہی میں اس تفصیل کے مطابق خرچ کرے گا جسے اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ «واعلموا أنما غنمتم من شيئ فإن لله خمسه وللرسول ولذي القربى ولليتامى والمساكين» میں بیان کیا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح مشكوة المصابيح (4026)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2755
فوائد ومسائل: رسول اللہﷺ غنیمت میں سے صرف خمس لیا کرتے تھے۔ اس طرح امام المسلمین بھی اس مسئلے میں نبی کریمﷺ کی اقتداء کرے۔ اور کوئی خاص چیز اپنے لئے خاص نہ کرے۔ الا یہ کہ کوئی خاص مصلحت ہو۔ (نیل الأوطار، الجهاد، باب أن أربعة أخماس الغنیمة للغانمین۔ ۔ ۔ 296/7۔ و باب بیان الصفی۔ ۔ ۔ ۔ 316/7)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2755