عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے دن فرمایا: ”جس نے ایسا ایسا کیا اس کو بطور انعام اتنا اتنا ملے گا“، جوان لوگ آگے بڑھے اور بوڑھے جھنڈوں سے چمٹے رہے اس سے ہٹے نہیں، جب اللہ نے مسلمانوں کو فتح دی تو بوڑھوں نے کہا: ہم تمہارے مددگار اور پشت پناہ تھے اگر تم کو شکست ہوتی تو تم ہماری ہی طرف پلٹتے، تو یہ نہیں ہو سکتا کہ یہ غنیمت کا مال تم ہی اڑا لو، اور ہم یوں ہی رہ جائیں، جوانوں نے اسے تسلیم نہیں کیا اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ہم کو دیا ہے، تب اللہ نے یہ آیت کریمہ «يسألونك عن الأنفال قل الأنفال لله»”یہ لوگ آپ سے غنیمتوں کا حکم دریافت کرتے ہیں آپ فرما دیجئیے کہ یہ غنیمتیں اللہ کی ہیں اور رسول کی سو تم اللہ سے ڈرو اور اپنے باہمی تعلقات کی اصلاح کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اگر تم ایمان والے ہو، بس ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا ذکر آتا ہے تو ان کے قلوب ڈر جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور زیادہ کر دیتی ہیں اور وہ لوگ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں جو کہ نماز کی پابندی کرتے ہیں اور ہم نے ان کو جو کچھ دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں سچے ایمان والے یہ لوگ ہیں ان کے لیے بڑے درجے ہیں ان کے رب کے پاس اور مغفرت اور عزت کی روزی ہے جیسا کہ آپ کے رب نے آپ کے گھر سے حق کے ساتھ آپ کو روانہ کیا اور مسلمانوں کی ایک جماعت اس کو گراں سمجھتی تھی“(سورۃ الانفال: ۱-۵) سے «كما أخرجك ربك من بيتك بالحق وإن فريقا من المؤمنين لكارهون» تک نازل فرمائی، پھر ان کے لیے یہی بہتر ہوا، اسی طرح تم سب میری اطاعت کرو، کیونکہ میں اس کے انجام کار کو تم سے زیادہ جانتا ہوں۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجِهَادِ/حدیث: 2737]
من فعل كذا وكذا فله من النفل كذا وكذا قال فتقدم الفتيان ولزم المشيخة الرايات فلم يبرحوها فلما فتح الله عليهم قال المشيخة كنا ردءا لكم لو انهزمتم لفئتم إلينا فلا تذهبوا بالمغنم ونبقى فأبى الفتيان وقالوا جعله رسول الله لنا ف
من فعل كذا وكذا فله من النفل كذا وكذا قال فتقدم الفتيان ولزم المشيخة الرايات فلم يبرحوها فلما فتح الله عليهم قال المشيخة كنا ردءا لكم لو انهزمتم لفئتم إلينا فلا تذهبوا بالمغنم ونبقى فأبى الفتيان وقالوا جعله رسول الله لنا ف
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2737
فوائد ومسائل: 1۔ سورہ انفال کی ابتدائی پانچ آیتوں کا ترجمہ یہ ہے یہ لوگ آپﷺ سے غنیمتوں کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دیجئے کہ غنائم کا مالک اللہ ہے۔ اور اس کا رسولﷺ سو تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ اور آپس میں صلح سے رہو۔ اللہ اور اس کے رسولﷺکی اطاعت کرو۔ اگر تم (واقعی) مومن ہو۔ ایمان والے تو وہ ہیں جب اللہ کا نام آئے۔ تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں۔ اور جب ان پر اس کی آیات پڑھی جاتی ہیں۔ توان کا ایمان بڑھ جاتا ہے۔ اور وہ اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ وہ جو نماز قائم کرتے ہیں۔ اور جو ہم نے ان کو دیا ہے خرچ کرتے ہیں۔ یہی لوگ سچے ایمان دار ہیں۔ ان کے لئے اپنے رب کے پاس درجات ہیں۔ اور مغفرت اورعزت کی روزی ہے۔ جسا کہ آپ کو آپ کے رب نے آپ کوگھر سے حق کے ساتھ نکالا جب کہ مومنوں میں سے ایک جماعت راضی نہ تھی۔
2۔ جہاد اور دیگر اعمال خیر میں لوگوں کوشوق دلانے ان کی حوصلہ افزائی اور مزید سبقت کےلئے انعامات دینا مسنون ومستحب ہے۔ مگر ان پر واجب ہے کہ اپنی نیتوں کومحض دنیا کے مال ومتاع تک محدود نہ رکھیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعیدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2737