عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب مال غنیمت حاصل ہوتا تو آپ بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیتے کہ وہ لوگوں میں اعلان کر دیں کہ لوگ اپنا مال غنیمت لے کر آئیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے خمس (پانچواں حصہ) نکال کر باقی مجاہدین میں تقسیم کر دیتے، ایک شخص اس تقسیم کے بعد بال کی ایک لگام لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا: اللہ کے رسول! یہ بھی اسی مال غنیمت میں سے ہے جو ہمیں ملا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم نے بلال رضی اللہ عنہ کو تین مرتبہ آواز لگاتے سنا ہے؟“ اس نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر اسے لانے سے تمہیں کس چیز نے روکے رکھا؟“ تو اس نے آپ سے کچھ عذر بیان کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ لے جاؤ، قیامت کے دن لے کر آنا، میں تم سے اسے ہرگز قبول نہیں کروں گا“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجِهَادِ/حدیث: 2712]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 8838)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/213) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (4012)
إذا أصاب غنيمة أمر بلالا فنادى في الناس فيجيئون بغنائمهم فيخمسه ويقسمه فجاء رجل بعد ذلك بزمام من شعر فقال يا رسول الله هذا فيما كنا أصبناه من الغنيمة فقال أسمعت بلالا ينادي ثلاثا قال نعم قال فما منعك أن تجيء به فاعتذر إليه فقال كن أنت تجيء به يوم القيامة
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2712
فوائد ومسائل: 1۔ عام معاملات میں نبی کریم ﷺ انتہائی نرم اور رقیق القلب تھے۔ مگر حدود اللہ اور حقوق العباد کے معاملے میں انتہائی سخت تھے۔
2۔ دنیا کی سزا جتنی بھی ہو آخرت کے عذاب کے مقابلے میں تھوڑی ہلکی اور ختم ہونے والی ہوتی ہے۔ اور آخرت کا عذاب ناقابل بیان حد تک سخت ہے۔
3۔ نبی کریمﷺ کا قول قبول کرنے سے انکار کرنے سے مقصد اس جرم کی شناعت وقباحت کو واضح کرنا تھا۔ اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اس کی توبہ غیر مقبول تھی یا اس مال کو اس کے مستحقین میں پہنچانا ناممکن تھا۔ اور بعض نے اس کی توجیہ اس طرح کی ہے۔ کہ اس مال غنیمت میں تمام مجاہدین کا حصہ تھا۔ اور وہ سب متفرق ہوچکے تھے۔ اس میں سے ہرایک کو اس کا حصہ پہنچانا ناممکن تھا۔ اس لئے اس حصے کو اس کے پاس ہی رہنے دیا گیا تاکہ اس کا وبال اسی پر پڑے۔ اور وہی اس کی سزا بھگتے۔ اس میں بھی گویا وعید شدید کا پہلو ہے۔ (عون)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2712