رباح بن ربیع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک غزوہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ نے دیکھا کہ لوگ کسی چیز کے پاس اکٹھا ہیں تو ایک آدمی کو بھیجا اور فرمایا: ”جاؤ، دیکھو یہ لوگ کس چیز کے پاس اکٹھا ہیں“، وہ دیکھ کر آیا اور اس نے بتایا کہ لوگ ایک مقتول عورت کے پاس اکٹھا ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تو ایسی نہیں تھی کہ قتال کرے“۱؎، مقدمۃ الجیش (فوج کے اگلے حصہ) پر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ مقرر تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے پاس کہلا بھیجا کہ وہ ہرگز کسی عورت کو نہ ماریں اور نہ کسی مزدور کو ۲؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجِهَادِ/حدیث: 2669]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/الجھاد 30 (2842)، (تحفة الأشراف: 3449، 3700)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/488، 4/178، 346) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: معلوم ہوا کہ عورت اگر لڑائی میں حصہ لیتی ہے اور لڑتی ہے تو اسے قتل کیا جائے گا بصورت دیگر اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔ ۲؎: یہاں مزدور سے مراد وہ مزدور ہے جو لڑتا نہ ہو صرف خدمت کے لئے ہو۔
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح مشكوة المصابيح (3955)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2669
فوائد ومسائل: 1۔ اگر عورت کا قتال میں کوئی عمل دخل نہ ہو تو اس کا قتل جائز نہیں۔ لیکن اگر ثابت ہو کہ وہ کوئی کردار ادا کرتی ہے تو قتل کرنا جائز ہوگا۔ اور یہی حکم گھریلو قسم کے ملازمین اور بوڑھے لوگوں کا ہے۔
2۔ حدیث میں لفظ مقدمہ مذکور ہے۔ لغت میں مقدمہ کسی بھی چیز کے اگلے حصے کو کہتےہیں۔ تو یہاں سے اس سے مراد فوج کا ہر اول دستہ ہے جو آگے آگے چلتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2669