علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا، اور ایک آدمی ۱؎ کو اس کا امیر بنایا اور لشکر کو حکم دیا کہ اس کی بات سنیں، اور اس کی اطاعت کریں، اس آدمی نے آگ جلائی، اور لوگوں کو حکم دیا کہ وہ اس میں کود پڑیں، لوگوں نے اس میں کودنے سے انکار کیا اور کہا: ہم تو آگ ہی سے بھاگے ہیں اور کچھ لوگوں نے اس میں کود جانا چاہا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر وہ اس میں داخل ہو گئے ہوتے تو ہمیشہ اسی میں رہتے“، اور فرمایا: ”اللہ کی معصیت میں کسی کی اطاعت نہیں، اطاعت تو بس نیکی کے کام میں ہے ۲؎“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجِهَادِ/حدیث: 2625]
وضاحت: ۱؎: اس آدمی کا نام عبداللہ بن حذافہ سہمی تھا جن کا تذکرہ پچھلی حدیث میں ہے، بعض لوگ کہتے ہیں: ان کا نام ” علقمہ بن مجزر تھا “۔ ۲؎: اس سے معلوم ہوا کہ اگر امیر شریعت کے خلاف حکم دے تو اس کی اطاعت نہ کی جائے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (7257) صحيح مسلم (1840)
بعث جيشا وأمر عليهم رجلا فأوقد نارا وقال ادخلوها فأرادوا أن يدخلوها وقال آخرون إنما فررنا منها فذكروا للنبي فقال للذين أرادوا أن يدخلوها لو دخلوها لم يزالوا فيها إلى يوم القيامة وقال للآخرين لا طاعة في معصية إنما الطاعة في المعروف
بعث النبي سرية فاستعمل رجلا من الأنصار وأمرهم أن يطيعوه فغضب فقال أليس أمركم النبي أن تطيعوني قالوا بلى قال فاجمعوا لي حطبا فجمعوا فقال أوقدوا نارا فأوقدوها فقال ادخلوها فهموا وجعل بعضهم يمسك بعضا ويقولون فررنا إلى النبي من النار فما زالوا حتى خمدت النار
بعث جيشا وأمر عليهم رجلا فأوقد نارا وقال ادخلوها فأراد ناس أن يدخلوها وقال الآخرون إنا قد فررنا منها فذكر ذلك لرسول الله فقال للذين أرادوا أن يدخلوها لو دخلتموها لم تزالوا فيها إلى يوم القيامة وقال للآخرين قولا حسنا وقال لا طاعة في معصية الله إنما الطاعة
بعث جيشا وأمر عليهم رجلا وأمرهم أن يسمعوا له ويطيعوا فأجج نارا وأمرهم أن يقتحموا فيها فأبى قوم أن يدخلوها وقالوا إنما فررنا من النار وأراد قوم أن يدخلوها فبلغ ذلك النبي فقال لو دخلوها أو دخلوا فيها لم يزالوا فيها وقال لا طاعة في معصية الله إنما الطاعة في
بعث جيشا وأمر عليهم رجلا فأوقد نارا فقال ادخلوها فأراد ناس أن يدخلوها وقال الآخرون إنما فررنا منها فذكروا ذلك لرسول الله فقال للذين أرادوا أن يدخلوها لو دخلتموها لم تزالوا فيها إلى يوم القيامة وقال للآخرين خيرا وقال لا طاعة في معصية الله إنما الطاعة في ال
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2625
فوائد ومسائل: جو شخص شریعت کی مخالفت میں حکام وقت کی اطاعت کرے۔ وہ اللہ کا نا فرمان ہے۔ اور اللہ کے ہاں اس کا یہ عذر مقبول نہ ہوگا کہ حاکم کی اطاعت میں میں نے ایسے کیا تھا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2625
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4210
´اس شخص کی سزا جسے گناہ کے کام کا حکم دیا جائے اور وہ اسے بجا لائے۔` علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فوج بھیجی اور ایک شخص ۱؎ کو اس کا امیر مقرر کیا، اس نے آگ جلائی اور کہا: تم لوگ اس میں داخل ہو جاؤ، تو کچھ لوگوں نے اس میں داخل ہونا چاہا اور دوسروں نے کہا: ہم تو (ایمان لا کر) آگ ہی سے بھاگے ہیں، پھر لوگوں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا۔ آپ نے ان لوگوں سے جنہوں نے اس میں داخل ہونا چاہا تھا فرمایا: ”اگر تم اس میں داخل ہو جاتے تو قیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب البيعة/حدیث: 4210]
اردو حاشہ: (1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی امام و امیر ایسا حکم دے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی پر مبنی ہو تو ایسا حکم اور امیر قطعاً واجب الطاعۃ نہیں۔ اور اگر کوئی شخص ایسے کسی حکم کو مانے گا تو اس کا وبال اسی پر ہو گا۔ (2) حدیث مبارکہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ غصہ بڑے بڑے عقیل و فہیم اور جلیل القدر عظماء کی عقل کو بھی ماؤف کر دیتا ہے جیسا کہ اس صحابیٔ رسول کا معاملہ ہے کہ جسے خود رسول اللہ ﷺ نے امیر سریہ مقرر فرمایا اور کسی بات پر ناراض ہو کر وہ غصے میں آ گئے اور اپنے ساتھیوں کو آگ جلا کر اس میں کود جانے کا حکم دے دیا۔ (3) اس حدیث سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ساری امت، ضلالت و گمراہی پر جمع نہیں ہو سکتی جیسا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت نے اپنے امیر کے غیر شرعی حکم کی اطاعت نہیں کی۔ (4) رسول اللہ ﷺ نے سریہ میں جانے والے تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا تھا کہ اپنے امیر کی اطاعت کرنا۔ یہی وجہ ہے کہ جب حالت ناراضی میں بھی انہیں امیر نے آگ میں کودنے کا حکم دیا تو کچھ لوگ اس پر تیار ہو گئے کیونکہ انہوں نے اطاعت امیر والے مطلق حکم کو عام، یعنی ہر قسم کے حالات کو شامل سمجھا، لیکن اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حکم مطلق کا اطلاق عام اور ہر قسم کے حالات پر ضروری نہیں بلکہ وہاں اطلاق ہو گا جہاں اللہ او اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی نہ ہوتی ہو، اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے اس کی وضاحت فرما دی۔ (5)”آگ ہی میں رہتے“ یعنی ان کو قبر میں عذاب ہوتا۔ برزخی زندگی میں جہنم سے تعلق ہی کو عذاب قبر کہا جاتا ہے اور جنت سے تعلق کو ثواب قبر۔ اور جہنم میں غالب آگ ہی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4210
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4766
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دستہ روانہ فرمایا اور ان پر ایک انصاری آدمی کو امیر مقرر فرمایا اور انہیں اس کی بات سننے اور ماننے کا حکم دیا، تو انہوں نے اسے کسی وجہ سے ناراض کر ڈالا، تو اس نے کہا، میرے لیے لکڑیاں جمع کرو، انہوں نے لکڑیاں جمع کر دیں، پھر کہا، آگ روشن کرو، انہوں نے آگ جلائی، پھر کہا، کیا تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری بات سننے اور ماننے کا حکم نہیں دیا تھا؟ انہوں نے کہا،... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:4766]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث میں عبداللہ بن حذافہ سہمی کو دین کا معاون اور مددگار ہونے کی حیثیت سے انصاری قرار دیا گیا ہے، یا یہ واقعہ الگ ہے اور حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ تعالی عنہ کا واقعہ علیحدہ ہے، جو سنن ابن ماجہ میں ابواب الجہاد حدیث نمبر 2893 میں بیان کیا گیا ہے، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر، حضرت علقمہ بن مجزز رضی اللہ تعالی عنہ کی سرکردگی میں بھیجا تھا، اس کا ایک دستہ ان سے اجازت لے کر الگ ہو گیا، جس کا امیر انہوں نے حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی کو بنا دیا، میں بھی اس دستہ میں تھا، راستہ میں ان لوگوں نے تانپے کے لیے یا کوئی چیز پکانے کے لیے آگ جلائی، تو حضرت عبداللہﷺ، جن کی طبیعت میں مزاح تھا، کہنے لگے، کیا تم میری بات سننے اور ماننے کے پابند ہو، ساتھیوں نے کہا، کیوں نہیں، تو حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا، میں جو کچھ کہوں گا، کرو گے؟ انہوں نے کہا، ہاں، حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا، میرا تمہیں تاکیدی حکم ہے کہ اس آگ میں چھلانگیں لگا دو، تو کچھ لوگ کھڑے ہو گئے، اور اس کے لیے تیاری کرنے لگے، جب حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے سمجھا کہ یہ کود جائیں گے، تو کہا، رک جاؤ، میں تو تمہارے ساتھ مذاق کر رہا تھا، واپس آ کر ہم نے اس کا تذکرہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، تو آپﷺ نے فرمایا: ”جو امیر تمہیں نافرمانی کا حکم دے، اس کی بات نہ مانو۔ “
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4766
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4340
4340. حضرت علی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ایک لشکر روانہ کیا اور اس کا سالار ایک انصاری شخص کو مقرر فرمایا اور لوگوں کو حکم دیا کہ وہ اس کی اطاعت کریں۔ اتفاق سے اسے غصہ آیا تو کہنے لگا: کیا نبی ﷺ نے تمہیں میری اطاعت کا حکم نہیں دیا تھا؟ لوگوں نے کہا کہ کیوں نہیں، تب اس نے کہا کہ تم سب میرے لیے لکڑیاں جمع کرو۔ انہوں نے لکڑیاں جمع کر دیں۔ اس نے کہا کہ اب آگ سلگاؤ۔ انہوں نے آگ بھی سلگائی۔ پھر اس نے کہا کہ اس میں کود جاؤ۔ انہوں نے کود جانے کا ارادہ کیا تو ان میں سے کچھ ایک دوسرے کو روکنے لگے اور انہوں نے کہا کہ ہم اس آگ سے راہ فرار اختیار کر کے تو نبی ﷺ کے پاس آئے ہیں۔ وہ اسی طرح بحث مباحثے میں رہے کہ آگ بجھ گئی اور اس کا غصہ بھی جاتا رہا۔ پھر جب نبی ﷺ کو اس واقعے کی اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا: ”اگر وہ اس آگ میں داخل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4340]
حدیث حاشیہ: امام خلیفہ پیر مرشد کی اطاعت صرف قرآن وحدیث کے مطابق احکام کے اندر ہے۔ اگر وہ خلاف بات کہیں تو پھر ان کی اطاعت کر نا جائز نہیں ہے۔ ا سی لیے ہمارے امام ابو حنیفہ ؒ نے فرمایا کہ إذا صح الحدیث فھو مذھبي۔ جب صحیح حدیث مل جائے تو وہی میر امذہب ہے۔ ایسے موقع پر میرے فتوی کو چھوڑ کر صحیح حدیث پر عمل کر نا۔ حضرت امام کی وصیت کے باوجود کتنے لوگ ہیں جو قول امام کے آگے صحیح حدیث کو ٹھکرا دیتے ہیں۔ اللہ تعالی ان کو سمجھ عطا کرے۔ بقول حضرت شاہ ولی اللہ ؒ مرحوم ایسے لوگ قیامت کے دن اللہ کی عدالت میں کیا جواب دے سکیں گے۔ مروجہ تقلید شخصی کے خلاف یہ حدیث ایک مشعل ہدایت ہے۔ بشرطیکہ آنکھ کھول کر اس سے روشنی حاصل کی جائے۔ ائمہ کرام کا ہرگز یہ منشاء نہ تھا کہ ان کے ناموں پر الگ الگ مذاہب بنائے جائیں کہ وہ اسلامی وحدت کو پارہ پارہ کرکے رکھ دیں۔ اللہ نے سچ فرمایا ﴿إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّهِ﴾
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4340
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7145
7145. سیدنا علی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ایک دستہ بھیجا اور اس پر انصار کے ایک آدمی کو امیر بنایا۔ آپ نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ اس کی اطاعت کریں۔پھر وہ امیر ان لشکریوں پر ناراض ہوگیا اور کہنے لگا: کیا تمہیں نبی ﷺ نے میری اطاعت کا حکم نہیں دیا تھا؟لوگوں نے کہا: کیوں نہیں! اس امیرنے کہا: میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ تم لکڑیوں جمع کرکے آگ جلاؤ پھر اس میں کود جاؤ،لوگوں نے لکڑیاں جمع کیں اور آگ جلائی۔پھر جب انہوں نے اس میں کودنے کا ارادہ کیا تو ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔کچھ لوگوں نے کہا: ہم نے نبی ﷺ کی فرمانبرداری تو آگ سے بچنے کے لیے کی تھی تو کیا پھر ہم خود ہی آگ میں کود جائیں؟ وہ اسی سوچ بچار میں تھے کہ اس دوران میں آگ ٹھنڈی ہوگئی اور امیر کا غصہ بھی جاتا رہا،پھر جب نبی ﷺ سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا: اگر وہ آگ میں کود جاتے تو پھر اس سے کبھی نہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:7145]
حدیث حاشیہ: غلط باتوں میں اطاعت جائز نہیں ہے۔ یہ امیر لشکر حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی انصاری رضی اللہ عنہ تھے۔ غصہ میں ان سے یہ بات ہوئی۔ غصہ ٹھنڈا ہون تک وہ آگ بھی ٹھنڈی ہوگئی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7145
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7257
7257. سیدنا علی ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک لشکر بھیجا اور اس پر ایک آدمی کو امیر مقرر فرمایا۔ اس نے آگ کا الاؤ تیار کیا اور لشکریوں سے کہا: اس آگ میں کود پڑو۔ کچھ لوگوں نے اس میں کودنے کا ارادہ کیا تو دوسرے کہنے لگے: ہم آگ ہی سے بھاگ کر ادھر آئے ہیں۔ جب انہوں ںے اس بات کا ذکر نبی ﷺ سے کیا تو آپ نے ان لوگوں سے فرمایا جنہوں نے کود جانے کا ارادہ کیا تھا: ”اگر یہ لوگ آگ میں داخل ہو جاتے تو قیامت تک اس میں رہتے۔“ پھر دوسرے لوگوں نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت جائز نہیں۔ اطاعت صرف نیک کاموں میں ہوتی ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7257]
حدیث حاشیہ: باقی خدا اور رسول کے حکم کے خلاف کسی کا حکم نہ ماننا چاہئیے‘ بادشاہ ہو یا وزیر سب چھپر پر رہے ہمارا بادشاہ حقیقی اللہ ہے۔ یہ دنیا کے جھوٹے بادشاہ گویا گڑیوں کے بادشاہ ہیں یہ کیا کر سکتے ہیں بہت ہوا تو دنیا کی چند روزہ زندگی لے لیں گے وہ بھی بادشاہ حقیقی چاہے گا ورنہ ایک بال ان سے بیکا نہیں ہو سکتا۔ اس حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے یوں نکلتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جائز باتوں میں سردار کی اطاعت کا حکم دیا‘ حالانکہ وہ ایک شخص ہوتا ہے دوسرے یہ کہ بعضے صحابہ نے اس کی ایک بات سنی اورآگ میں بھی گھسنا چاہا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7257
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4340
4340. حضرت علی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ایک لشکر روانہ کیا اور اس کا سالار ایک انصاری شخص کو مقرر فرمایا اور لوگوں کو حکم دیا کہ وہ اس کی اطاعت کریں۔ اتفاق سے اسے غصہ آیا تو کہنے لگا: کیا نبی ﷺ نے تمہیں میری اطاعت کا حکم نہیں دیا تھا؟ لوگوں نے کہا کہ کیوں نہیں، تب اس نے کہا کہ تم سب میرے لیے لکڑیاں جمع کرو۔ انہوں نے لکڑیاں جمع کر دیں۔ اس نے کہا کہ اب آگ سلگاؤ۔ انہوں نے آگ بھی سلگائی۔ پھر اس نے کہا کہ اس میں کود جاؤ۔ انہوں نے کود جانے کا ارادہ کیا تو ان میں سے کچھ ایک دوسرے کو روکنے لگے اور انہوں نے کہا کہ ہم اس آگ سے راہ فرار اختیار کر کے تو نبی ﷺ کے پاس آئے ہیں۔ وہ اسی طرح بحث مباحثے میں رہے کہ آگ بجھ گئی اور اس کا غصہ بھی جاتا رہا۔ پھر جب نبی ﷺ کو اس واقعے کی اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا: ”اگر وہ اس آگ میں داخل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4340]
حدیث حاشیہ: 1۔ مسند احمد میں ہے کہ اس لشکر کا سالار حضر ت عبداللہ بن حذافہ ؓ کو بنایا گیاتھا۔ (مسند احمد: 67/3) لیکن یہ انصاری نہیں بلکہ ان کاتعلق مہاجرین سے ہے۔ شاید انھیں انصاری اس لیے کہا گیا ہوکہ انھوں نے دین اسلام کے معاملات میں رسول اللہ ﷺ کی مدد کی تھی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ روایت میں انصار کا لفظ راوی کاوہم ہو۔ (فتح الباري: 73/8) واللہ اعلم۔ 2۔ ایک روایت میں ہے کہ جو لوگ امیر کےتیارکردہ الاؤ میں کودنے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ (مسند احمد: 94/1) 3۔ واضح رہے کہ حضرت علقمہ ؓ اس قیافہ شناس کے بیٹے ہیں جنھوں نے حضرت اسامہ ؓ اورحضرت زید ؓ کے پاؤں دیکھ کرکہا تھا کہ یہ دونوں باپ بیٹا ہیں اور رسول اللہ ﷺ اس قیافہ سے بہت خوش ہوئے تھے، اس لیے علقمہ ؓ خود صحابی ہیں اور صحابی کے بیٹے ہیں۔ (فتح الباري: 74/8) 4۔ ابن اسحاق نے اس سریے کا یہ سبب بیان کیا ہے کہ غزوہ ذی قرد میں وقاص بن مجزز شہید ہوگئے تھے تو ان کے بھائی حضرت علقمہ بن مجزز نے انتقام لینا چاہا، تب رسول اللہ ﷺ نے اس سریے کو روانہ کیا۔ یہ بیان پہلے ذکر کردہ سبب کے خلاف ہے۔ ممکن ہے کہ اس سریے کے دونوں اسباب ہوں۔ واللہ اعلم۔ (فتح الباري: 73/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4340
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7145
7145. سیدنا علی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ایک دستہ بھیجا اور اس پر انصار کے ایک آدمی کو امیر بنایا۔ آپ نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ اس کی اطاعت کریں۔پھر وہ امیر ان لشکریوں پر ناراض ہوگیا اور کہنے لگا: کیا تمہیں نبی ﷺ نے میری اطاعت کا حکم نہیں دیا تھا؟لوگوں نے کہا: کیوں نہیں! اس امیرنے کہا: میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ تم لکڑیوں جمع کرکے آگ جلاؤ پھر اس میں کود جاؤ،لوگوں نے لکڑیاں جمع کیں اور آگ جلائی۔پھر جب انہوں نے اس میں کودنے کا ارادہ کیا تو ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔کچھ لوگوں نے کہا: ہم نے نبی ﷺ کی فرمانبرداری تو آگ سے بچنے کے لیے کی تھی تو کیا پھر ہم خود ہی آگ میں کود جائیں؟ وہ اسی سوچ بچار میں تھے کہ اس دوران میں آگ ٹھنڈی ہوگئی اور امیر کا غصہ بھی جاتا رہا،پھر جب نبی ﷺ سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا: اگر وہ آگ میں کود جاتے تو پھر اس سے کبھی نہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:7145]
حدیث حاشیہ: 1۔ امیر لشکر حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں سمندری ڈاکوؤں کی سرکوبی کے لیے جدے کی طرف روانہ کیا تھا۔ جب ڈاکوؤں کوپتا چلا تو وہ ان کے پہنچنے سے پہلے ہی بھاگ گئے۔ جب اہل لشکر کو اس بات کاعلم ہوا توا نھوں نے امیر کی اجازت کے بغیر واپسی کی تیاری شروع کردی،اس پر امیر کوغصہ آگیا اور آگ کا الاؤ تیارکرنے کا حکم دیا۔ یہ بات ان سے غصے کی حالت میں سرزدہوئی تھی اور غصہ ٹھنڈا ہونے تک وہ آگ بھی ٹھنڈی ہوگئی۔ 2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ لوگ آگ میں داخل ہوجاتے تو جل کر راکھ ہوجاتے اور اس سے زندہ نہ نکل سکتے۔ اس سے جہنم کی آگ مرادنہیں کیونکہ حدیث شفاعت سے معلوم ہوتا ہے کہ کلمہ گو موحد جہنم کی آگ سے ایک نہ ایک دن ضرور نکل آئے گا۔ اس سے مراد زجر وتوبیخ ڈانٹ ڈپٹ اور تنبیہ ہے تاکہ آئندہ اس قسم کے اقدام سے پرہیز کیا جائے۔ 3۔ واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت تو غیر مشروط ہے لیکن امراء اور حکمرانوں کی اطاعت صرف اس صورت میں ہوگی جب وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے خلاف نہ ہو،اگرخلاف ہوتوان کی بات نہیں مانی جائے گی،چنانچہ ایک روایت میں ہے: \"اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں۔ یہ اطاعت تو صرف معروف کاموں میں ہے۔ \"(صحیح مسلم الامارۃ حدیث 4765(1840) w
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7145
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7257
7257. سیدنا علی ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک لشکر بھیجا اور اس پر ایک آدمی کو امیر مقرر فرمایا۔ اس نے آگ کا الاؤ تیار کیا اور لشکریوں سے کہا: اس آگ میں کود پڑو۔ کچھ لوگوں نے اس میں کودنے کا ارادہ کیا تو دوسرے کہنے لگے: ہم آگ ہی سے بھاگ کر ادھر آئے ہیں۔ جب انہوں ںے اس بات کا ذکر نبی ﷺ سے کیا تو آپ نے ان لوگوں سے فرمایا جنہوں نے کود جانے کا ارادہ کیا تھا: ”اگر یہ لوگ آگ میں داخل ہو جاتے تو قیامت تک اس میں رہتے۔“ پھر دوسرے لوگوں نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت جائز نہیں۔ اطاعت صرف نیک کاموں میں ہوتی ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7257]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس لشکر کے امیر حضرت عبد اللہ بن حذافہ سہمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ وہ کسی بات پر ان سے ناراض ہو گئے تو بطور سزا انھیں آگ میں کود جانے کا حکم دیا۔ 2۔ امیر ایک آدمی یعنی فرد واحد ہوتا ہے اور اس کی بات مانی جاتی ہے۔ پھر آگ میں کود جانے کے لیے تیار ہونے والوں نے اس کی بات کو مانا اور انکار کرنے والے بھی اس کے علاوہ باتوں میں اس کے اطاعت گزار تھے۔ اس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خبر واحد کی حجیت کو ثابت کیا ہے۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر کی اطاعت کا حکم دیا۔ حالانکہ وہ فرد واحد ہوتا ہے بہر حال خبر واحد حجت ہے اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7257