ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص دو گھوڑوں کے درمیان ایک گھوڑا داخل کر دے اور گھوڑا ایسا ہو کہ اس کے آگے بڑھ جانے کا یقین نہ ہو تو وہ جوا نہیں، اور جو شخص ایک گھوڑے کو دو گھوڑوں کے درمیان داخل کرے اور وہ اس کے آگے بڑھ جانے کا یقین رکھتا ہو تو وہ جوا ہے“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجِهَادِ/حدیث: 2579]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/الجھاد 44 (2876)، (تحفة الأشراف: 1321)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/505) (ضعیف) (’’سفیان بن حسین“ زہری سے روایت میں ضعیف ہیں یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اِسے متصل بنا دیا ہے جبکہ زہری کے ثقہ تلامذہ نے اس کو مرسلا روایت کیا ہے، جیسا کہ مؤلف نے بیان کیا ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ابن ماجه (2876) سفيان بن حسين ثقة لكنه ضعيف عن الزهري انظر تھذيب التهذيب (108/4) وتقريب التهذيب (2437) قال ابن عبد الھادي : الأكثر علي تضعيفه في روايته عن الزھري (تنقيح التحقيق 106/3 ح 1597،و في نسخة 236/2،المكتبة الشاملة) وقال ابن حجر : ثقة في غير الزھري باتفاقھم (تقريب التهذيب : 2437) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 94
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2579
فوائد ومسائل: اس باب کی احادیث سمجھنے کے لئے چند امور معلوم ہونے چاہیں: 1۔ اگر امیر المجاہدین یا کوئی اور شخص دو شہسواروں میں دوڑ وغیرہ کا مقابلہ کرائے اور جیتنے والے کو انعام واکرام دے تو جائز ہے۔
2۔ لیکن دو افراد (یا فریق) آپس میں یہ طے کر کے مقابلہ کریں کہ ہارنے والا جیتنے والے کو اس قدر انعام دے گا تو یہ جوا ہے۔ اور ناجائز ہے۔
3۔ اگر ان دو مقابلہ کرنے والوں میں کوئی تیسرا فریق داخل ہو جائے جس کے جیتنے یا ہارنے کا کوئی یقین نہ ہو بلکہ ان کے ہم پلہ ہونے کی بناء پر کوئی بھی نتیجہ نکل سکتا ہو کہ اس کے جیت جانے پر وہ دونوں اس کو انعام دیں او ر ہار جانے پر اس پر کچھ بھی لازم نہ آتا ہو تو یہ صورت جائز ہے۔ چونکہ اس کا ان دو میں داخل ہوجانا ان کے انعام لین دینے کو جائز بنا دیتا ہے، اس وجہ سے اسے محلل کہا جاتا ہے۔ محلل یعنی (جوئے سے) حلال کرنے والا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2579