زہری سے اس سند سے بھی یہ حدیث مروی ہے جس میں ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے اس دروازے پر پہنچے جو ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے دروازے کے پاس ہے تو ان کے قریب سے دو شخص گزرے، اور پھر اسی مفہوم کی حدیث بیان کی۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2471]
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2471
فوائد ومسائل: (1) بیوی اور دیگر تعلق داروں کو معتکف ست ملاقات کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اور ظاہر ہے کہ یہ ملاقاتیں ایک حد تک ہونی چاہئیں اور اس اثنا میں ضروری گفتگو بھی ہو سکتی ہے۔ (2) حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حالت اعتکاف میں ملاقات کا یہ واقعہ صحیح بخاری (حدیث:2035) میں بھی ہے۔ اس میں صراحت ہے کہ حضرت صفیہ (زوجہ مطہرہ) کا گھر مسجد کے دروازے سے متصل ہی تھا، اس لیے رخصت کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے دروازے تک ان کے ساتھ معتکف سے باہر آئے۔ بنا بریں اس واقعے سے یہ استدلال کرنا صحیح نہیں ہے کہ معتکف بیوی کو گھر تک چھوڑنے کے لیے مسجد سے باہر جا سکتا ہے۔ ہاں حوائج ضروریہ کا انتظام مسجد کے اندر نہ ہو تو بات اور ہے۔ ان کے لیے باہر جانا مجبوری کے تحت جائز ہو گا۔
(3) انسان کو بالعموم اور حساس مناصب پر فائز شخصیات کے لیے بالخصوص ضروری ہے کہ اپنے آپ کو ہر طرح کے شبہات سے پاک رکھیں۔ اور کسی متوقع شبہ کا قبل از وقوع ازالہ کر دینا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2471