الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابي داود
كتاب الصيام
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
80. باب الْمُعْتَكِفِ يَدْخُلُ الْبَيْتَ لِحَاجَتِهِ
80. باب: معتکف اپنی ضرورت کے لیے گھر میں داخل ہو سکتا ہے۔
حدیث نمبر: 2471
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، بِإِسْنَادِهِ بِهَذَا، قَالَتْ: حَتَّى إِذَا كَانَ عِنْدَ بَابِ الْمَسْجِدِ الَّذِي عِنْدَ بَابِ أُمِّ سَلَمَةَ، مَرَّ بِهِمَا رَجُلَانِ، وَسَاقَ مَعْنَاهُ.
زہری سے اس سند سے بھی یہ حدیث مروی ہے جس میں ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے اس دروازے پر پہنچے جو ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے دروازے کے پاس ہے تو ان کے قریب سے دو شخص گزرے، اور پھر اسی مفہوم کی حدیث بیان کی۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2471]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 15901) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2035)

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2471 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2471  
فوائد ومسائل:
(1) بیوی اور دیگر تعلق داروں کو معتکف ست ملاقات کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
اور ظاہر ہے کہ یہ ملاقاتیں ایک حد تک ہونی چاہئیں اور اس اثنا میں ضروری گفتگو بھی ہو سکتی ہے۔
(2) حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حالت اعتکاف میں ملاقات کا یہ واقعہ صحیح بخاری (حدیث:2035) میں بھی ہے۔
اس میں صراحت ہے کہ حضرت صفیہ (زوجہ مطہرہ) کا گھر مسجد کے دروازے سے متصل ہی تھا، اس لیے رخصت کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے دروازے تک ان کے ساتھ معتکف سے باہر آئے۔
بنا بریں اس واقعے سے یہ استدلال کرنا صحیح نہیں ہے کہ معتکف بیوی کو گھر تک چھوڑنے کے لیے مسجد سے باہر جا سکتا ہے۔
ہاں حوائج ضروریہ کا انتظام مسجد کے اندر نہ ہو تو بات اور ہے۔
ان کے لیے باہر جانا مجبوری کے تحت جائز ہو گا۔

(3) انسان کو بالعموم اور حساس مناصب پر فائز شخصیات کے لیے بالخصوص ضروری ہے کہ اپنے آپ کو ہر طرح کے شبہات سے پاک رکھیں۔
اور کسی متوقع شبہ کا قبل از وقوع ازالہ کر دینا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2471