الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابي داود
كتاب الصيام
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
76. باب فِي الصَّائِمِ يُدْعَى إِلَى وَلِيمَةٍ
76. باب: روزہ دار کو ولیمہ کھانے کی دعوت دی جائے تو کیا کرے؟
حدیث نمبر: 2460
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا دُعِيَ أَحَدُكُمْ فَلْيُجِبْ، فَإِنْ كَانَ مُفْطِرًا فَلْيَطْعَمْ، وَإِنْ كَانَ صَائِمًا فَلْيُصَلِّ". قَالَ هِشَامٌ: وَالصَّلَاةُ الدُّعَاءُ. قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، أَيْضًا عَنْ هِشَامٍ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے تو اسے قبول کرنا چاہیئے، اگر روزے سے نہ ہو تو کھا لے، اور اگر روزے سے ہو تو اس کے حق میں دعا کر دے۔ ہشام کہتے ہیں: «صلاۃ» سے مراد دعا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2460]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 14573)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/242)، سنن الدارمی/الصوم 31 (1778) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (1431)

   صحيح البخاريلو دعيت إلى كراع لأجبت ولو أهدي إلي ذراع لقبلت
   صحيح البخاريلو دعيت إلى كراع لأجبت ولو أهدي إلي كراع لقبلت
   صحيح مسلمإذا دعي أحدكم فليجب إن كان صائما فليصل إن كان مفطرا فليطعم
   جامع الترمذيإذا دعي أحدكم إلى طعام فليجب إن كان صائما فليصل
   سنن أبي داودإذا دعي أحدكم فليجب إن كان مفطرا فليطعم إن كان صائما فليصل

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2460 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2460  
فوائد ومسائل:
مسلمانوں کو موقع بموقع آپس میں دعوتوں کا اہتمام کرتے رہنا چاہیے، اس سے آپس کے تعلقات مضبوط ہوتے اور محبتیں بڑھتی ہیں۔
روزے دار بھی دعوت میں شریک ہو اور ان کے لیے دعا کرے۔
اگر روزہ نفلی ہو تو توڑنا جائز ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2460   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 780  
´روزہ دار دعوت قبول کرے اس کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کو کھانے کی دعوت ملے تو اسے قبول کرے، اور اگر وہ روزہ سے ہو تو چاہیئے کہ دعا کرے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 780]
اردو حاشہ:
1؎:
یعنی صاحب طعام کے لیے برکت کی دعا کرے،
کیو نکہ طبرانی کی روایت میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے واردہے جس میں ((وَإِنْ كَانَ صَائِمََا فَلْيَدْعُ بِالْبَرَكَةِ)) کے الفاظ آئے ہیں،
باب کی حدیث میں ((فَلْیُصَلِّ)) کے بعد يعني الدعاء کے جو الفاظ آئے ہیں یہ ((فَلْیُصَلِّ)) کی تفسیر ہے جو خود امام ترمذی نے کی ہے یا کسی اور راوی نے،
مطلب یہ ہے کہ یہاں نماز پڑھنا مراد نہیں بلکہ اس سے مراد دعا ہے،
بعض لوگوں نے اسے ظاہر پر محمول کیا ہے،
اس صورت میں اس حدیث کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ دعوت دینے والے کی دعوت قبول کرے اس کے گھر جائے اور گھر کے کسی کونے میں جا کر دو رکعت نماز پڑھے جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے ام سلیم رضی اللہ عنہا کے گھر میں پڑھی تھی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 780   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3520  
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کسی کو جب دعوت دی جائے تو وہ قبول کرے، پھر اگر روزہ دار ہو تو دعا کر دے اور اگر روزہ نہ ہو تو کھا لے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3520]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اگر دعوت قبول کرنے میں کوئی شرعی رکاوٹ یا عذر نہ ہو تو اسے روزہ کی حالت میں بھی قبول کرلینا چاہیے،
اگر صاحب دعوت اصرار کرے اور روزہ نفلی ہو تو اس کو توڑا بھی جا سکتا ہے،
اگر وہ اصرار نہ کرے تو پھر روزہ کی حالت میں اس کے لیے خیرو برکت اور رحمت و مغفرت کی دعا کردے یا اس کے گھر میں خیروبرکت کے لیے نماز پڑھ لے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3520   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2568  
2568. حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اگر مجھے دستی یا پائے کے گوشت کی دعوت دی جائے تو میں ضرور جاؤں گا۔ اور اگر مجھے دستی کا گوشت یاکھر ہدیہ بھیجا جائے تو میں ضرور قبول کروں گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2568]
حدیث حاشیہ:
تحفہ کتنا بھی تھوڑا ہو قابل قدر ہے اور دعوت میں کچھ بھی پیش کیا جائے، دعوت بہر حال قابل قبول ہے۔
ان عملوں سے باہمی محبت پیدا ہوتی ہے جو اسلام کا اصلی منشاء ہے۔
اس سے گوشت کا بطور ہبہ و تحفہ و ہدیہ پیش کرنا ثابت ہوا۔
حضرت امام ؒ کے نزدیک لفظ ہبہ ان سب پر بولا جاسکتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2568   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5178  
5178. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے۔ وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اگر مجھے سری پائے کی دعوت دی جائے تو میں اسے ضرور قبول کروں گا۔ اور اگر مجھے سری پائے کا ہدیہ دیا جائے تو میں ضرور قبول کروں گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5178]
حدیث حاشیہ:
کیسا ہی کم حصہ ہو میں لے لوں گا کسی مسلمان کی دل شکنی نہ کروں گا۔
یہی وہ اخلاق حسنہ تھے جس کی بنا پر اللہ نے آپ کو ﴿وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ﴾ (القلم: 4)
سے نوازا۔
غریبوں کی دعوت میں نہ جانا، غریبوں سے نفرت کرنا، یہ فرعونیت ہے ایسے متکبر لوگ خدا کے نزدیک مچھر سے بھی زیادہ ذلیل ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5178   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2568  
2568. حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اگر مجھے دستی یا پائے کے گوشت کی دعوت دی جائے تو میں ضرور جاؤں گا۔ اور اگر مجھے دستی کا گوشت یاکھر ہدیہ بھیجا جائے تو میں ضرور قبول کروں گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2568]
حدیث حاشیہ:
(1)
بکری کے بازو کا گوشت بہترین ہوتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ اسے بہت پسند کرتے تھے۔
پسندیدگی کی وجہ یہ تھی کہ یہ آلائش اور غلاظت سے الگ رہتا ہے جبکہ بکری کے پایوں کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی۔
(2)
رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ دعوت اور ہدیہ میں اچھی چیز ہو یا حقیر چیز جو کچھ بھی پیش کیا جائے اسے خوش دلی سے قبول کرنا چاہیے، چہرے پر کسی قسم کی ناگواری نہ ہو، ایسا کرنے سے تعلقات خوشگوار رہتے ہیں اور افرادِ معاشرہ میں محبت کے جذبات پروان چڑھتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے قلیل سے قلیل ہدیہ قبول کرنے کی ترغیب دلائی ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2568   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5178  
5178. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے۔ وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اگر مجھے سری پائے کی دعوت دی جائے تو میں اسے ضرور قبول کروں گا۔ اور اگر مجھے سری پائے کا ہدیہ دیا جائے تو میں ضرور قبول کروں گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5178]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ دعوت ولیمہ میں اگر صرف سری پائے ہی کا اہتمام ہو تو بھی اسے ضرور قبول کرنا چاہیے۔
اسے ٹھکرانے سے اجتناب کرنا ہوگا۔
(2)
اس حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کمال تواضع اور حسن خلق کا پتا چلتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت قبول کرنے کی رغبت اس لیے دلائی ہے کہ یہ محبت و الفت میں اضافے کا باعث ہے، نیز دعوت کا اہتمام کرنے والے کے لیے خوشی و مسرت کا ذریعہ ہے، نیز آپس میں مل بیٹھنے کا بہترین موقع ہے۔
(فتح الباري: 306/9)
بہرحال کسی وقت بھی اپنے بھائی کی دل شکنی نہیں کرنی چاہیے اگرچہ وہ معمولی چیز کی دعوت دے۔
غریبوں کی دعوت میں نہ جانا اور ان سے نفرت کرنا یہ فرعونیت ہے۔
ایسے متکبر لوگ اللہ تعالیٰ کے ہاں کیڑے مکوڑوں سے بھی زیادہ ذلیل ہیں۔
والله المستعان
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5178