الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابي داود
كتاب الصيام
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
16. باب مَنْ سَمَّى السَّحُورَ الْغَدَاءَ
16. باب: سحری کے کھانے کو «غداء» (دوپہر کا کھانا) کہنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2344
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ النَّاقِدُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ الْخَيَّاطُ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ سَيْفٍ، عَنْ الْحَارِثِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي رُهْمٍ، عَنْ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ، قَالَ: دَعَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّحُورِ فِي رَمَضَانَ، فَقَالَ:" هَلُمَّ إِلَى الْغَدَاءِ الْمُبَارَكِ".
عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں سحری کھانے کے لیے بلایا اور یوں کہا: بابرکت «غداء» پر آؤ۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2344]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏سنن النسائی/الصیام 13 (2165)،(تحفة الأشراف: 9883)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/126، 127) (حسن لغیرہ)» ‏‏‏‏ (ابو رہم مجہول ہیں، حدیث کے شواہد سے یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: الصحيحة للألباني: 3408، وتراجع الألباني: 192)

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
مشكوة المصابيح (1997)
أخرجه النسائي (2165 وسنده حسن) الحارث بن زياد حسن الحديث وللحديث شواھد عند ابن حبان (الموارد: 881) وغيره

   سنن النسائى الصغرىهلموا إلى الغداء المبارك
   سنن أبي داودهلم إلى الغداء المبارك

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2344 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2344  
فوائد ومسائل:
کھانا انسانی فطرت کا ایک لازمہ ہے، مگر شریعت کی اتباع میں سحری کا کھانا مبارک کھانا ہوتا ہے۔
چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ناطق وحی ہیں، اپنی مرضی سے کچھ نہیں کہتے، اس لیے اگر کسی کی طبیعت میں سحری کے لیے چاہت نہ بھی ہو تو ایک دو لقمے یا کجھور یا کسی مشروب کے چند گھونٹ ضرور لے لینے چاہئیں تاکہ اس برکت سے حصہ مل جائے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2344