اس سند سے بھی سہل بن سعد رضی اللہ عنہما سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے: انہوں (عاصم بن عدی) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اسے تین طلاق دے دی تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نافذ فرما دیا، اور جو کام آپ کی موجودگی میں کیا گیا ہو وہ سنت ہے۔ سہل رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت میں موجود تھا، اس کے بعد لعان کرنے والے مرد اور عورت کے سلسلہ میں طریقہ ہی یہ ہو گیا کہ انہیں جدا کر دیا جائے، اور وہ دونوں پھر کبھی اکٹھے نہ ہوں۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2250]
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ونُقل عن الساجي ما ملخصه :’’ روي ابن وھب عن عياض بن عبد اللّٰه الفهري أحاديث فيھا نظر ‘‘ انظر تهذيب التهذيب (201/8) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 85
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2250
فوائد ومسائل: لعان کرنے والوں میں ہمیشہ کے لیے علیحدگی کس طرح ہوگی؟ نفس لعان سے یا خاوند کے طلاق دینے سے یا حاکم کی ان کے درمیان تفریق کرانے سے؟ آئمہ کے درمیان اس کے درمیان اختلاف ہے۔ اور تینوں ہی مسلک آئمہ نے الگ الگ آئمہ نے اختیار کیے ہیں۔ لیکن راجح مسلک پہلا ہے کیونکہ لعان کرنے کے بعد نہ خاوند کو طلاق دینے کی ضرورت رہتی ہے اور نہ حاکم کو تفریق کرانے کی۔ اور یہ جو بعض روایات میں آتا ہے کہ خاوند نے لعان کے بعد تین طلاقیں دے دیں تو اس کی وجہ خاوند کا یہ سمجھنا تھا کہ جب تک میں طلاق نہیں دوں گا وہ میری ہی رہے گی۔ حالانکہ ایسا نہیں تھا لیکن اپنی سمجھ کی وجہ سے اس نے فوراً تین طلاقیں دے دیں اور بعض روایات میں جو آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے درمیان تفریق کرا دی حالانکہ ان کے درمیان تفریق کرانے کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ راوی کا یہ بیان کرنے سے مقصود بھی یہ تھا کہ اس عمل لعان کا حکم اور نتیجہ یہ ہے کہ ان کے درمیان ہمیشہ کے لیے تفریق ہوگئی۔ اس توجیہ سے بیان واقعہ کی تعبیر میں جو اختلاف ہے ان کے درمیان بھی تطبیق ہوجاتی ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2250