الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابي داود
كتاب تفريع أبواب الطلاق
کتاب: طلاق کے فروعی احکام و مسائل
26. باب إِذَا أَسْلَمَ أَحَدُ الأَبَوَيْنِ مَعَ مَنْ يَكُونُ الْوَلَدُ
26. باب: ماں باپ میں سے جب ایک اسلام قبول کر لے تو بچے کس کے ساتھ ہوں گے؟
حدیث نمبر: 2244
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا عِيسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ، أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي رَافِعِ بْنِ سِنَانٍ، أَنَّهُ أَسْلَمَ وَأَبَتِ امْرَأَتُهُ أَنْ تُسْلِمَ، فَأَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: ابْنَتِي وَهِيَ فَطِيمٌ أَوْ شَبَهُهُ، وَقَالَ رَافِعٌ: ابْنَتِي، قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اقْعُدْ نَاحِيَةً"، وَقَالَ لَهَا:" اقْعُدِي نَاحِيَةً"، قَالَ:" وَأَقْعَدَ الصَّبِيَّةَ بَيْنَهُمَا"، ثُمَّ قَالَ:" ادْعُوَاهَا"، فَمَالَتِ الصَّبِيَّةُ إِلَى أُمِّهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اللَّهُمَّ اهْدِهَا"، فَمَالَتِ الصَّبِيَّةُ إِلَى أَبِيهَا فَأَخَذَهَا.
رافع بن سنان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اسلام قبول کر لیا، لیکن ان کی بیوی نے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا، اور آپ کے پاس آ کر کہنے لگی: بیٹی میری ہے (اسے میں اپنے پاس رکھوں گی) اس کا دودھ چھوٹ چکا تھا، یا چھوٹنے والا تھا، اور رافع نے کہا کہ بیٹی میری ہے (اسے میں اپنے پاس رکھوں گا) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رافع کو ایک طرف اور عورت کو دوسری طرف بیٹھنے کے لیے فرمایا، اور بچی کو درمیان میں بٹھا دیا، پھر دونوں کو اپنی اپنی جانب بلانے کے لیے کہا بچی ماں کی طرف مائل ہوئی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اسے ہدایت دے، چنانچہ بچی اپنے باپ کی طرف مائل ہو گئی تو انہوں نے اسے لے لیا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2244]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الطلاق 52 (3495)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 22 (2352)، (تحفة الأشراف: 3594)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/446، 447) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے یہ مستنبط ہوتا ہے کہ باشعور بچے کو اختیار دیا جائیگا کہ ماں باپ میں سے جس کو چاہے اختیار کر لے، اور دودھ پیتا بچہ ماں کے تابع ہو گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
جعفر بن عبد الله صرح بالسماع من جده عند البيھقي (8/3) والحاكم (2/206) وھي رواية غريبة

   سنن النسائى الصغرىأسلم وأبت امرأته أن تسلم فجاء ابن لهما صغير لم يبلغ الحلم فأجلس النبي الأب ها هنا والأم ها هنا ثم خيره فقال اللهم اهده فذهب إلى أبيه
   سنن أبي داوداللهم اهدها فمالت الصبية إلى أبيها فأخذها
   بلوغ المراماللهم اهده فمال إلى ابيه فاخذه

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2244 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2244  
فوائد ومسائل:
ماں باپ میں تفریق ہو جائے اور بچہ یا بچی سمجھدار ہو تو اسے اختیار دیا جائے گا کہ کسی ایک کو منتخب کرلے۔
اور اس صلاحیت سے پہلے کے بارے میں فقہاء کے مختلف اقوال ہیں۔
مثلاً بچہ سات سال تک ماں کی تحویل میں رہے اور بچی نو سال تک اس کے بعد باپ کو دیا جائے وغیرہ۔
(زادالمعاد، جلد چہارم، حکمه ﷺ في الحضانة۔
نیل الأوطار، کتاب النفقات)

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2244   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 989  
´پرورش و تربیت کا بیان`
حضرت رافع بن سنان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ خود مسلمان ہو گیا اور اس کی بیوی نے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماں کو ایک طرف اور باپ کو دوسرے گوشے میں بٹھا دیا اور بچے کو دونوں کے درمیان بٹھا دیا۔ تو بچہ ماں کی جانب مائل ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی الٰہی اس بچہ کو ہدایت دے۔ اس پر وہ بچہ باپ کی جانب مائل ہو گیا تو باپ نے بچے کو پکڑ لیا۔ اس کی تخریج ابوداؤد اور نسائی نے کی ہے اور حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 989»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الطلاق، باب إذا أسلم أحمدالأبوين لمن يكون الولد، حديث:2244، والنسائي، الطلاق، حديث:3525، والحاكم:2 /206.»
تشریح:
1. حدیث کا سیاق اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ بچہ چھوٹا تھا، ابھی تمیز نہیں کر سکتا تھا۔
صَبِيٌّ کا لفظ اسی کا مقتضی ہے۔
2. ابوداود کی روایت میں ہے کہ یہ جھگڑا ایک بچی کے بارے میں تھا جو کہ دودھ چھوڑ چکی تھی یا چھوڑنے کے قریب تھی۔
(سنن أبي داود‘ الطلاق‘ حدیث:۲۲۴۴) 3. جب یہ بات ثابت ہو چکی کہ بچہ چھوٹا تھا اور تمیز کی اہلیت و صلاحیت نہیں رکھتا تھا تو پھر تنازع اور جھگڑا بچے کی پرورش کے بارے میں تھا‘ ولایت و سرپرستی میں نہیں۔
4. یہ حدیث دلیل ہے کہ کافر ماں کے لیے پرورش کا حق ثابت ہے‘ لیکن اس میں یہ دلیل نہیں ہے کہ بچے کو تمیز کی اہلیت کے بعد والدین کے انتخاب میں اختیار دیا جائے گا جبکہ والدین میں سے ایک مسلمان اور دوسرا کافر ہو۔
راویٔ حدیث:
«حضرت رافع بن سنان رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ ابوالحکم انصاری اَوْسی مدنی رضی اللہ عنہ۔
مشہور صحابی ہیں۔
ابوالقاسم بن سلام نے الأنساب میں ان کے بارے میں کہا ہے: یہ عطبون‘ یعنی عامر بن ثعلبہ کی اولاد میں سے ہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 989   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3525  
´میاں بیوی میں سے کوئی ایک اسلام قبول کر لے تو نابالغ بیٹے کو کسی ایک کے ساتھ ہو جانے کا اختیار دیا جائے گا۔`
سلمہ انصاری اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ اسلام لے آئے اور ان کی بیوی نے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا، ان دونوں کا ایک چھوٹا بیٹا جو ابھی بالغ نہیں ہوا تھا آیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بٹھا لیا، باپ بھی وہیں تھا اور ماں بھی وہیں تھی۔ آپ نے اسے اختیار دیا (ماں باپ میں سے جس کے ساتھ بھی تو ہونا چاہے اس کے ساتھ ہو جا) اور ساتھ ہی کہا (یعنی دعا کی) اے اللہ اسے ہد [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3525]
اردو حاشہ:
خاوند بیوی میں سے ایک مسلمان ہو جائے اور بچہ سن تمیز کو پہنچا ہوا ہو تو اسے کس کی تحویل میں دیا جائے؟ اس میں اختلاف ہے۔ اصحاب الرائے کے نزدیک کافر کے لیے حق حضانت (پرورش) ثابت ہے۔ لیکن صحیح بات یہ ہے یہ ولایت ہے۔ اور جب نکاح اور مال میں کافر کی ولایت ثابت نہیں ہوتی تو حضانت میں تو بالا ولی ثابت نہیں ہوسکتی کیونکہ اس کا نقصان ان دونوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے‘ اس لیے کہ جب کافر‘ بچے کی پرورش کرے گا تو ظاہر ہے اس کی خواہش ہوگی کہ بچہ میرے دین پر ہو‘ اس لیے ہو اس کی اپنے دین کے مطابق پرورش اور تربیت کرے گا اور اپنے دین کی اسے تعلیم دے گا۔ نتیجتاً بچہ کافر ہوجائے گا کیونکہ بچہ وہی بنتا ہے جس کی اسے تربیت دی جائے۔ فرمان نبوی ہے: بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے‘ بعد میں اس کے والدین اسے یہودی‘ عیسائی یا مجوسی بناتے ہیں۔ (صحیح البخاري‘ الجنائز‘ حدیث: 1358‘ وصحیح مسلم‘ القدر‘ حدیث: 2658) بعد میں اس کا اسلام کی طرف آنا بہت مشکل ہوگا کیونکہ بچپن کا علم پتھر کی لکیر ہوتا ہے۔ اور یہ ایک بہت بڑا نقصان ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلا﴾ اس لیے بچے کو مسلمان کی تحویل میں دیا جائے گا۔ اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ بچے کا کافر کے پاس جانا اللہ کی منشا کے خلاف ہے کیونکہ اللہ اپنے بندوں سے ہدایت کا ارادہ رکھتا ہے۔ رہا یہ سوال کہ نبی ﷺ نے مذکورہ مسئلے میں اختیار کیوں دیا جبکہ ماں کافر تھی؟ تو اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ نبی ﷺ کو یقین تھا کہ میری دعا قبول ہوجا ئے گی اور بچہ یقینا باپ کے پاس جائے گا‘ اس لیے آپ نے ماں کی دل جوئی کے لیے ایسا کیا۔ اگر اس بات کو درست تسلیم نہ بھی کیا جائے اور مذکورہ صورت میں اختیار ہی کو درست سمجھا جائے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے اختیار دیا تھا‘ تو بھی کافر کی طرف مائل ہونے کی صورت میں بچہ اس کی تحویل میں اس شرط پر دیا جائے گا کہ وہ بچے کی تربیت اسلام کے مطابق کرے۔ یہ شرط عائد کرنا اس حدیث کے خلاف نہیں کیونکہ حدیث میں شرط کی نفی نہیں (اس لیے کہ حدیث میں بچے کے کافر کے پاس جانے کی نوبت نہیں آتی۔) بلکہ شرط دینی مصالح کے عین مطابق ہے اور اس سے تمام دلائل میں تطبیق ہوجاتی ہے اور کسی آیت یا حدیث کو (نعوذ باللہ) رد کرنے کی نوبت نہیں آتی۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3525