عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص مسلمان ہو کر آیا پھر اس کے بعد اس کی بیوی بھی مسلمان ہو کر آ گئی، تو اس نے کہا: اللہ کے رسول! یہ میرے ساتھ ہی مسلمان ہوئی ہے تو آپ اسے میرے پاس لوٹا دیجئیے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2238]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/النکاح 42 (1144)، سنن ابن ماجہ/النکاح 60 (2008)، (تحفة الأشراف: 6107)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/232، 323) (ضعیف)» (سماک کی عکرمہ سے روایت میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے، اور یہاں بھی دونوں روایتوں میں اضطراب ظاہر ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (1144،2008) سماك عن عكرمة :سلسلة ضعيفة،وإليه أشار في التقريب (2624) وأما عن غير عكرمة فسماك : صدوق حسن الحديث،إذا روي قبل اختلاطه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 85
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2238
فوائد ومسائل: ایام کفر وشرک کے نکاح بعد از اسلام بھی صحیح سمجھے جاتے ہیں۔ تجدید کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں الا یہ کہ کسی واضح حرمت کا ارتکاب ہواہو۔ مثلاً کسی محرم نسبی یا رضاعی سے نکاح کیا ہوتو فسخ ہوجائے گا ورنہ نہیں۔ جیسے کہ آگے تفصیل آرہی ہے۔ تاہم باعتبار سند یہ روایت ضعیف ہے۔ (إرواء الغلیل، حدیث:1918)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2238