ابن اسحاق سے روایت ہے کہ عبدالرحمٰن بن ہرمزاعرج نے مجھ سے بیان کیا کہ عباس بن عبداللہ بن عباس نے اپنی بیٹی کا نکاح عبدالرحمٰن بن حکم سے کر دیا اور عبدالرحمٰن نے اپنی بیٹی کا نکاح عباس سے کر دیا اور ان دونوں میں سے ہر ایک نے دوسرے سے اپنی بیٹی کے شادی کرنے کو اپنی بیوی کا مہر قرار دیا تو معاویہ نے مروان کو ان کے درمیان جدائی کا حکم لکھ کر بھیجا اور اپنے خط میں یہ بھی لکھا کہ یہی وہ نکاح شغار ہے جس سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب النِّكَاحِ/حدیث: 2075]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، مسند احمد (4/94)، (تحفة الأشراف: 11429) (حسن)»
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2075
فوائد ومسائل: 1 (وکا نا جعلا صداقا) میں (جعلا) کا مفعول اول محذوف ہے جیسے کہ مواردالظمان الی زوئد ابن حبان کی اسی روایت کے الفاظ میں صراحت ہے (وقد کان جعلاہ صداقا)(مواردالظمان، باب ماجاء في الشعار، حدیث:1268) اس بات سے واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت معاویہ کے حکم تفریق کی وجہ مشروط نکاح ہی کو حق مہر قرار دینا تھا، نہ کہ حق مہر مقرر کر دینے کے باوجود تبادلہ اختین یا بنتین۔
2: نکاح شغارکے ممنوع ہونے پر سب کا اتفاق ہے اگر کوئی کرے تو شافعی ؒاسے باطل کہتے ہیں۔ احمد اسحق اور ابو عبید ؒ سے بھی یہی مروی ہے امام مالک ؒ کا قول ہے کہ اسے فسخ کرا دیا جائے، خواہ دخول ہوا ہوجبکہ ان کا یاک قول یہ بھی ہے کہ قبل ازخول فسخ کرا دیا جائے نہ کہ بعد از دخول اور ایک جماعت علماء کے بقول مہر مثل ادا کرنے سے صحیح ہو جائے گا۔ امام ابو حنیفہ ؒ کا یہی مذہب ہے عطا، زہری اور لیثؒ سے بھی ایسے ہی منقول ہے احمد اور اسحق ؒ کی ایک روایت اسی طرح ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2075