براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ والوں سے صلح کی تو آپ نے ان سے اس شرط پر مصالحت کی کہ مسلمان مکہ میں جلبان السلاح کے ساتھ ہی داخل ہوں گے ۱؎ تو میں نے ان سے پوچھا: «جلبان السلاح» کیا ہے؟ انہوں نے کہا: «جلبان السلاح» میان کا نام ہے اس چیز سمیت جو اس میں ہو۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 1832]
امحه فقال علي ما أنا بالذي أمحاه فمحاه رسول الله بيده وصالحهم على أن يدخل هو وأصحابه ثلاثة أيام ولا يدخلوها إلا بجلبان السلاح فسألوه ما جلبان السلاح فقال القراب بما فيه
اعتمر النبي في ذي القعدة فأبى أهل مكة أن يدعوه يدخل مكة حتى قاضاهم على أن يقيم بها ثلاثة أيام فلما كتبوا الكتاب كتبوا هذا ما قاضى عليه محمد رسول الله قالوا لا نقر لك بهذا لو نعلم أنك رسول الله ما منعناك شيئا ولكن أنت محمد بن عبد الله ف
لما أراد أن يعتمر أرسل إلى أهل مكة يستأذنهم ليدخل مكة فاشترطوا عليه أن لا يقيم بها إلا ثلاث ليال ولا يدخلها إلا بجلبان السلاح ولا يدعو منهم أحدا قال فأخذ يكتب الشرط بينهم علي بن أبي طالب فكتب هذا ما قاضى عليه محمد رسول الله فقالوا لو علمنا أنك رسول الله ل
كانوا مع رسول الله يوم الحديبية ألفا وأربع مائة أو أكثر فنزلوا على بئر فنزحوها فأتوا رسول الله فأتى البئر وقعد على شفيرها ثم قال ائتوني بدلو من مائها فأتي به فبصق فدعا ثم قال دعوها ساعة فأرووا أنفسهم وركابهم حت
أحصر النبي عند البيت صالحه أهل مكة على أن يدخلها فيقيم بها ثلاثا ولا يدخلها إلا بجلبان السلاح السيف وقرابه ولا يخرج بأحد معه من أهلها ولا يمنع أحدا يمكث بها ممن كان معه قال لعلي اكتب الشرط بيننا بسم الله الرحمن الرحيم هذا ما قاضى عليه محمد رسول الله فقال
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1832
1832. اردو حاشیہ: اللہ عزوجل محدثین کو کروٹ کروٹ اپنی رحمتوں سے نوازے کسی خوبصورت انداز میں ایک تاریخی واقعہ سے فقہی مسئلہ استنباط کیا ہے۔کہ محرم کے لئے جائز ہے کہ اپنے ہتھیار رکھے۔اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہوگی ان کے فقیہ ہونے کی کتب ا حادیث کا تمام ذخیرہ اس طائفہ منصورہ کے فقیہ ہونے کی بین دلیل ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1832
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4251
´سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی منقبت و فضیلت` ”. . . سیدنا برا بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: «أنت مني، وأنا منك» آپ مجھ سے اور میں آپ سے ہوں . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/بَابُ عُمْرَةُ الْقَضَاءِ:: 4251]
فوائد و مسائل: ↰ اس حدیث سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی منقبت و فضیلت ثابت ہوتی ہے، مگر اس فضیلت میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ منفرد نہیں ہیں، بلکہ کئی دوسرے صحابہ کرام بھی اس میں شریک ہیں، جیسا کہ: ➊ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إن الأشعريين إذا أرملوا فى الغزو، أو قل طعام عيالهم بالمدينة؛ جمعوا ما كان عندهم فى ثوب واحد، ثم اقتسموه بينهم فى إنائ واحد بالسوية، فهم مني، وأنا منهم .» ”جب قبیلہ اشعر کے لوگوں کا جہاد کے موقع پر توشہ کم ہو جاتا ہے، یا مدینہ میں قیام کے دوران ان کے بال بچوں کے لئے کھانے کی کمی ہو جاتی ہے، تو جو بھی توشہ ان کے پاس جمع ہوتا ہے، وہ اس کو ایک کپڑے میں جمع کر لیتے ہیں، پھر آپس میں ایک برتن سے برابر تقسیم کر لیتے ہیں۔ چنانچہ وہ مجھ سے اور میں ان سے ہوں۔“[صحيح البخاري: 2486، صحيح مسلم: 2500]
➋ سیدنا جلییب رضی اللہ عنہ جو ایک غزوہ میں جرأت و بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سات کفار کو واصل جہنم کرنے کے بعد شہید ہو گئے تھے، ان کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «هٰذا مني، وأنا منه، هٰذا مني، وأنا منه .» ”یہ مجھ سے اور میں ان سے ہوں۔ یہ مجھ سے اور میں ان سے ہوں۔“[صحيح مسلم: 2472]
➌ سیدنا یعلیٰ بن مرہ ثقفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «حسين مني، وأنا منه .» ”حسین (رضی اللہ عنہ) مجھ سے اور میں ان سے ہوں۔“[مسند الإمام أحمد:172/4، الأدب المفرد للبخاري:364، سنن الترمذي: 3775، وقال: حسن، سنن ابن ماجة:144، المعجم الكبير للطبراني: 274/22، ح: 702، المستدرك للحاكم: 194/3،ح: 4820، وسنده حسن] ↰اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ [6971] نے ”صحیح“ اور امام حاکم رحمہ اللہ نے ”صحیح الاسناد“ کہا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اسے ”صحیح“ قرار دیا ہے۔ ❀ ایک روایت میں «حسين مني، وأنا من حسين» کے الفاظ بھی ہیں۔
الحاصل: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی کو اپنی طرف اور خود کو کسی کی طرف منسوب کرنا بڑی فضیلت کی بات ہے البتہ یہ فضیلت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ کئی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی حاصل۔ اس بنا پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بلا فصل قرار دینے کی کوشش کرنا سود مند نہیں۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4631
حضرت براء بیان کرتے ہیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ سے روک دئیے گئے، اہل مکہ نے آپﷺ سے اس شرط پر صلح کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں داخل ہو کر صرف تین دن ٹھہر سکیں گے اور آپ اس میں اسلحہ کو غلاف میں بند کر کے داخل ہوں گے، تلوار میان میں ہو گی اور اپنے ساتھ اس کے کسی باشندے کو لے نہیں جائیں گے اور اپنے ساتھیوں میں سے کسی ایسے فرد کو نہیں روکیں گے جو وہاں ٹھہرنا چاہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:4631]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: کتب ”ابن عبداللہ“ سے بعض حضرات نے یہ استدلال کیا ہے کہ یہ لفظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے تحریر فرمایا، لیکن جمہور کے نزدیک لکھنے والے حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں، جیسا کہ اگلی روایت میں آ رہا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے لکھا، اس لیے آپﷺ کی طرف نسبت کی گئی ہے اور اگر آپ نے یہ لفظ معجزاتی طور پر خود بھی لکھ دیا ہو تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ نے لکھنا پڑھنا جان لیا تھا، کیونکہ ایک لفظ لکھنے والے کو کاتب نہیں کہتے اور آپﷺ نے صلح کے معاہدہ کے مطابق اگلے سال 7ھ میں عمرہ کیا اور اس میں تین دن مکہ میں ٹھہرے اور یہ عمرہ صلح کے نتیجہ میں ہوا، اس لیے اس کو عام المقاضاۃ، عمرۃ القضیۃ اور عمرۃ القضاء کا نام دیا گیا، یہ نہیں کہ آپﷺ نے رہ جانے والے عمرہ کی قضائی دی تھی، اس لیے عمرۃ القضاء کہلایا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4631
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2698
2698. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: جب رسول اللہ ﷺ نے اہل حدیبیہ سے صلح کی تو حضرت علی ؓ نے ان کے درمیان صلح نامہ تحریر کیا۔ انھوں نے "محمدرسول اللہ ﷺ " لکھا تو مشرکین نے کہا: "محمد رسول اللہ ﷺ "نہ لکھو۔ اگر آپ اللہ کے رسول ہوتے تو ہم آپ سے لڑائی نہ کرتے، چنانچہ آپ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا: ”اس کو مٹادو۔“ حضرت علی نے کہا: میں تو اس کو نہیں مٹاؤں گا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے ا پنے دست انور سے مٹایا اور ان سے اس شرط پر صلح کی کہ آپ اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم أجمعین (اگلے سال) تین دن تک مکہ مکرمہ میں رہیں گے اور مکہ میں داخلہ بھی جلبان السلاح کے ساتھ ہو گا۔ انھوں نے پوچھا: یہ جلبان السلاح کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا: ”اس سے مراد نیام اور جو کچھ اس میں ہوتا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2698]
حدیث حاشیہ: صلح نامہ میں صرف محمد بن عبداللہ لکھاگیا۔ اسی سے ترجمۃ الباب ثابت ہوا۔ اس سے یہ ظاہر ہوا کہ کسی موقع پر اگر مخالفین کوئی نامناسب مطالبہ کریں جو ضد کی حد تک پہنچ جائے تو مجبوراً اسے تسلیم کرنا پڑے گا۔ آج جب کہ اہل اسلام اقلیت میں ہیں اور معاندین اسلام کی اکثریت ہے تو مجبوراً مسلمانوں کے سامنے ایسے بہت سے مسائل ہیں جن کو بادل ناخواستہ تسلیم کرنے ہی میں سلامتی ہے۔ ایسے امور کے لیے امید ہے کہ عنداللہ مؤاخذہ نہ ہوگا۔ آنحضرت ﷺ مستقبل میں اسلام کی فتح مبین دیکھ رہے تھے۔ اسی لیے حدیبیہ کے موقع پر مصلحتاً آپ نے مشرکین کی کئی ایک نامناسب باتوں کو تسلیم کرلیا اور آئندہ خود مشرکین مکہ ہی کو ان کی غلط شرائط کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ سچ ہے الحق یعلوولا یعلیٰ علیه
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2698
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3184
3184. حضرت براء ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے جب عمرہ کرنے کا ارادہ فرمایا تو مکہ میں داخلے کے لیے اہل مکہ سے اجازت لینے کی خاطرایک آدمی بھیجا تو انھوں نے اس شرط کے ساتھ اجازت دی کہ آپ مکہ میں تین دن سے زیادہ قیام نہیں کریں گے۔ مکہ میں ہتھیار بند داخل ہوں گے اور کسی کو دین اسلام کی دعوت نہیں دیں گے۔ حضرت علی ؓ بن ابی طالب نے ان کے مابین شرائط لکھنا شروع کیں تو مضمون لکھا: یہ وہ صلح نامہ ہے جس پر محمد رسول اللہ ﷺ نے صلح کی ہے۔ مکہ والوں نےکہا: اگر ہمیں یقین ہوکہ آپ اللہ کے رسول ﷺ ہیں تو ہم آپ کو نہ روکتے بلکہ آپ کی بیعت کرلیتے لیکن مضمون اس طرح لکھو: اس شرط پر محمد بن عبداللہ نے صلح کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! میں محمد بن عبداللہ ہوں اور اللہ کی قسم! میں اللہ کا رسول بھی ہوں۔“ آپ تو لکھنا نہیں جانتے تھے اس لیے آپ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا: ”(لفظ)رسول اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:3184]
حدیث حاشیہ: حضرت علیؓ کا انکار حکم عدولی اور مخالفت کے طور پر نہ تھا۔ بلکہ آنحضرت ﷺ کی محبت اور خیرخواہی اور جوش ایمان کی وجہ سے تھا۔ اس لیے کوئی گناہ حضرت علی ؓ پر نہ ہوا۔ یہاں سے شیعہ حضرات کو سبق لینا چاہئے کہ جیسے حضرت علی ؓ نے محض محبت کی وجہ سے آنحضرت ﷺ کے فرمانے کے خلاف کیا، ویسا ہی حضرت عمر ؓ نے بھی قصہ قرطاس میں آنحضرت ﷺ کی تکلیف کے خیال سے لکھے جانے میں مخالفت کی۔ دونوں کی نیت بخیر تھی۔ کار پاکاں از قیاس خود مگیر ایک جگہ حسن ظن کرنا، دوسری جگہ بدظنی صریح انصاف سے بعید ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3184
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4251
4251. حضرت براء ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب نبی ﷺ نے ذوالقعدہ میں عمرہ کرنے کا ارادہ کیا تو اہل مکہ نے آپ کو مکے میں داخل ہونے سے روک دیا یہاں تک کہ آپ نے ان سے ان شرائط پر صلح کر لی کہ آپ آئندہ سال عمرے کے موقع پر مکے میں تین دن تک ٹھہر سکیں گے۔ جب معاہدہ لکھا جانے لگا تو اس میں لکھا کہ یہ وہ معاہدہ ہے جس پر محمد ﷺ نے صلح کی ہے تو مشرکین مکہ نے کہا: ہم اس کا اقرار نہیں کرتے۔ اگر ہمیں یقین ہو کہ آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں تو پھر آپ کو کسی چیز سے نہیں روک سکتے تھے لیکن آپ محمد بن عبداللہ ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں اللہ کا رسول بھی ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی ہوں۔“ پھر آپ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا: ”لفظ ”رسول اللہ“ مٹا دو۔“ حضرت علی ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! میں تو آپ کا نام کبھی نہیں مٹاؤں گا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے وہ دستاویز اپنے ہاتھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4251]
حدیث حاشیہ: حمزہ ؓ آنحضرت ﷺ کے رضاعی بھائی اور حقیقی چچا تھے اس لیے حلال نہ تھی۔ روایت میں عمرہ قضا کا ذکر ہے باب سے یہی مطابقت ہے۔ امام ابو الولید باجی نے اس حدیث کا مطلب یہی بیان کیا ہے کہ گو آپ لکھنا نہیں جانتے تھے مگر آپ نے معجزہ کے طور پر اس وقت لکھ دیا۔ قسطلانی نے کہا کہ حدیث کا ترجمہ یوں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ان کے ہاتھ سے کاغذ لے لیا اور آپ اچھی طرح لکھنا نہیں جانتے تھے۔ آپ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا رسول اللہ کا لفظ کہاں ہے انہوں نے بتلادیا۔ آپ نے اپنے ہاتھ سے اسے میٹ دیا پھر وہ کاغذ حضرت علی ؓ کو دے دیا انہوں نے پھر پورا صلح نامہ لکھا اس تقریر پر کوئی اشکال باقی نہ رہے گا۔ حافظ نے کہا اس حدیث سے حضرت جعفر ؓ کی بڑی فضیلت نکلی۔ خصائل اور سیرت میں آپ رسول اللہ ﷺ سے مشابہت تامہ رکھتے تھے۔ یہ لڑکی حضرت جعفر ؓ کی زندگی تک ان کے پاس رہی جب وہ شہید ہوئے تو ان کی وصیت کے مطابق حضرت علی ؓ کے پاس رہی اور ان ہی کے پاس جوان ہوئی۔ اس وقت حضرت علی ؓ نے آنحضرت ﷺ سے نکاح کے لیے کہا تو آپ نے یہ فرمایا جو روایت میں موجود ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4251
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3184
3184. حضرت براء ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے جب عمرہ کرنے کا ارادہ فرمایا تو مکہ میں داخلے کے لیے اہل مکہ سے اجازت لینے کی خاطرایک آدمی بھیجا تو انھوں نے اس شرط کے ساتھ اجازت دی کہ آپ مکہ میں تین دن سے زیادہ قیام نہیں کریں گے۔ مکہ میں ہتھیار بند داخل ہوں گے اور کسی کو دین اسلام کی دعوت نہیں دیں گے۔ حضرت علی ؓ بن ابی طالب نے ان کے مابین شرائط لکھنا شروع کیں تو مضمون لکھا: یہ وہ صلح نامہ ہے جس پر محمد رسول اللہ ﷺ نے صلح کی ہے۔ مکہ والوں نےکہا: اگر ہمیں یقین ہوکہ آپ اللہ کے رسول ﷺ ہیں تو ہم آپ کو نہ روکتے بلکہ آپ کی بیعت کرلیتے لیکن مضمون اس طرح لکھو: اس شرط پر محمد بن عبداللہ نے صلح کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! میں محمد بن عبداللہ ہوں اور اللہ کی قسم! میں اللہ کا رسول بھی ہوں۔“ آپ تو لکھنا نہیں جانتے تھے اس لیے آپ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا: ”(لفظ)رسول اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:3184]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس معاہدے میں یہ بھی تحریر تھا کہ اہل مکہ میں سے کوئی بھی آپ کے ساتھ جانے کو تیار ہوا تو آپ اسے مکہ سے باہر نہیں لے جا سکیں گے اور اگر آپ کے ساتھیوں میں سے کوئی شخص مکہ میں رہنا چاہے گا تو آپ اسے نہیں روکیں گے۔ (صحیح البخاري، الصلح، حدیث: 2699) بہرحال رسول اللہ ﷺ نے اس صلح نامے کی پاسداری کی۔ 2۔ اس حدیث سے تین دن یا اس سے کم و بیش معین مدت کے لیے صلح کا جواز ثابت ہوا۔ 3۔ حضرت علی ؓ کے انکار سے بظاہر رسول اللہ ﷺ کی مخالفت معلوم ہوتی ہے لیکن حضرت علی ؓ نے قرآئن سے معلوم کر لیا تھا کہ آپ کا یہ امر وجوب کے لیے نہیں۔ حضرت علی ؓ نے ایسا صرف جوش ایمان اور آپ سے محبت کی بنا پر کیا تھا جیسا کہ حضرت عمر ؓ نے حدیث قرطاس سے ایسا سمجھ لیا تھا کہ آپ کا امر وجوب کے لیے نہیں بلکہ وہاں بھی آپ سے خیرخواہی پیش نظر تھی۔ لیکن حضرت عمر ؓ کے معاملے میں بہت شور کیا جاتا ہے جبکہ حضرت علی ؓ کے سلسلے میں نرم گوشہ اختیار کیا جاتا ہے۔ حالانکہ دونوں حضرات کی نیت بخیر تھی۔ اس لیے ایک مقام پر حسن ظن سے کام لینا اور دوسری جگہ بد ظنی کرنا نا انصافی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3184
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4151
4151. حضرت براء بن عازب ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے بتایا کہ حدیبیہ کے روز رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ چودہ سو یا اس سے زیادہ لوگ تھے۔ انہوں نے وہاں ایک کنویں پر پڑاؤ کیا اور اس کا سارا پانی نکال لیا۔ پھر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ اس کنویں پر تشریف لائے اور اس کے کنارے پر بیٹھ گئے، پھر فرمایا: ”میرے پاس اس پانی کا ڈول لاؤ۔“ جب ڈول بھر کر لایا گیا تو آپ نے اس میں لعاب دہن ڈالا اور دعا فرمائی، اس کے بعد فرمایا: ”اسے تھوڑی دیر تک یوں ہی رہنے دو۔“ پھر انہوں نے خود پیا اور اپنی سواریوں کو بھی سیراب کیا، پھر وہاں سے مدینہ کے لیے عازم سفر ہوئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4151]
حدیث حاشیہ: 1۔ ان دونوں روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کنویں کے پانی کا ایک ڈول منگوایا، اس میں کلی کی اور لعاب دہن ڈالا اور دعا بھی فرمائی، پھر اسے کنویں میں ڈال دیا۔ موسیٰ بن عقبہ کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کنویں کی گہرائی میں ایک تیرگاڑا توپانی جوش مارنے لگا بہرحال آپ نے اس وقت یہ سب کام کیے تھے۔ (دلائل النبوة للبیهقي: 167/4 حدیث: 1448) 2۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”اے نبی کریم ﷺ! ہم نےآپ کو واضح فتح عطا کردی۔ “(الفتح 1: 48) اس فتح سے کیا مراد ہے، صلح حدیبیہ یا فتح مکہ؟ ہمارے رجحان کے مطابق اس سے مراد صلح حدیبیہ ہے کیونکہ یہ فتح مکہ کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ صلح کی وجہ سے لوگوں کو امن نصیب ہوا اور مشرکین سے جنگ وقتال ختم ہوگیا۔ رسول اللہ ﷺ نے مشرکین سے فارغ ہوکر دیار عرب میں بے شمار فتوحات حاصل کیں اور لوگ جوقدرجوق اسلام قبول کرنے لگے۔ جو کوئی مسلمان ہونا چاہتا وہ بلا روک ٹوک مدینہ طیبہ کا رخ کرتا اور اسلام قبول کرتا، چنانچہ اس دوران میں حضرت خالد بن ولید ؓ اور عمرو بن عاص ؓ جیسے عظیم جرنیل مسلمان ہوکر مدینے پہنچے۔ صلح حدیبیہ کے وقت مسلمانوں کی تعداد چودہ سو تھی۔ صلح کی برکات سے فتح مکہ تک یہ تعداد دس ہزار تک پہنچ گئی۔ (فتح الباري: 550/7) اس مؤقف کی تائید ایک روایت سے بھی ہوتی ہے۔ حضرت مجمع بن جاریہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ صلح حدیبیہ سے واپسی کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کراع الغمیم کے مقام پر کھڑے ہوئے، لوگوں کو جمع کیا اور یہ آیت پڑھی: ”ہم نے آپ کو واضح فتح عطا کردی۔ “ ایک آدمی نے عرض کی: اللہ کے رسول ﷺ! کیا یہ فتح ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یہی واضح فتح ہے۔ “ البتہ ﴿إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ﴾ سے مراد فتح مکہ ہے۔ (مسند أحمد: 420/3) واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4151
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4251
4251. حضرت براء ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب نبی ﷺ نے ذوالقعدہ میں عمرہ کرنے کا ارادہ کیا تو اہل مکہ نے آپ کو مکے میں داخل ہونے سے روک دیا یہاں تک کہ آپ نے ان سے ان شرائط پر صلح کر لی کہ آپ آئندہ سال عمرے کے موقع پر مکے میں تین دن تک ٹھہر سکیں گے۔ جب معاہدہ لکھا جانے لگا تو اس میں لکھا کہ یہ وہ معاہدہ ہے جس پر محمد ﷺ نے صلح کی ہے تو مشرکین مکہ نے کہا: ہم اس کا اقرار نہیں کرتے۔ اگر ہمیں یقین ہو کہ آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں تو پھر آپ کو کسی چیز سے نہیں روک سکتے تھے لیکن آپ محمد بن عبداللہ ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں اللہ کا رسول بھی ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی ہوں۔“ پھر آپ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا: ”لفظ ”رسول اللہ“ مٹا دو۔“ حضرت علی ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! میں تو آپ کا نام کبھی نہیں مٹاؤں گا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے وہ دستاویز اپنے ہاتھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4251]
حدیث حاشیہ: 1۔ عمرۃ القضا کے کئی ایک نام ہیں جن میں سے عمرۃالقضیہ عمرۃ الصلح اور عمرۃ القصاص زیادہ مشہور ہیں۔ 2۔ امام بخاری ؒ نے عمرۃ القضا کو کتاب المغازی میں اس لیے ذکر کیا ہے کہ کفار قریش نے جب مسلمانوں کو عمرہ کرنے سے روکا تومسلمانوں اور کافروں کے درمیان جھگڑا ہوا تھا پھر انھوں نے اپنے احرام کھول دیے تھے۔ دوسرے سال جب سات ہجری میں مسلمان طے شدہ فیصلے کے مطابق عمرے کے لیے گئے تو اس وقت بھی جھگڑا ہوا تھا اگرچہ تلواروں کا استعمال نہیں ہوااور غزوے میں تلواروں کا استعمال ضروری بھی نہیں۔ 3۔ واضح رہے کہ حضرت حمزہ ؓ کی جس بیٹی کے متعلق حضرت جعفر، حضرت زید ؓ اور حضرت علی ؓ میں جھگڑا ہوا اس کا نام عمارہ تھا اس کی والدہ سلمیٰ بنت عمیس ؓ ہے جو حضرت اسماء بنت عمیس ؓ کی بہن ہیں۔ حضرت اسماء ؓ اس وقت حضرت جعفر ؓ کے نکاح میں تھیں، ان حضرت کا بنت حمزہ ؓ کے متعلق جھگڑا مکہ مکرمہ نہیں ہوا جیسا کہ روایت کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے بلکہ مدینہ طیبہ پہنچ کر ہوا تھا۔ اس کی وضاحت خود حضرت علی ؓ سے مروی ہے فرماتے ہیں ہیں کہ جب ہم مدینہ طیبہ آئے تو ہم میں سے ہر ایک نے ان کی پرورش اور کفالت کا دعوی کیا۔ (مسند أحمد: 98/1) چونکہ عمارہ بنت حمزہ ؓ کی خالہ حضرت اسماء بنت عمیس ؓ حضرت جعفر ؓ کے نکاح میں تھیں، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ فرمایا: ”عمارہ اپنی خالہ کے پاس رہے گی۔ “حافظ ابن حجر ؒ نے وضاحت کی ہے کہ حضرت عمارہ ؓ اپنی خالہ کے پاس رہیں جب جنگ موتہ میں حضرت جعفر شہید ہوئے تو انھوں نے وصیت کی تھی کہ میرے بعد عمارہ حضرت علی ؓ کے پاس رہے گی۔ ان کے پاس رہتے ہوئے جب بالغ ہوئیں تو حضرت علی ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی کہ آپ اس سے نکاح کر لیں تو رسول اللہ ﷺ نے وضاحت فرمائی کہ عمارہ میری رضاعی بھتیجی ہے کیونکہ اس کے باپ کو اور مجھے حضرت ثوبیہ نے دودھ پلایا تھا۔ رضاعت کے مسائل آئندہ بیان ہوں گے۔ (فتح الباري: 636/7)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4251