یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ جعرانہ میں تھے، اس کے بدن پر خوشبو یا زردی کا نشان تھا اور وہ جبہ پہنے ہوئے تھا، پوچھا: اللہ کے رسول! آپ مجھے کس طرح عمرہ کرنے کا حکم دیتے ہیں؟ اتنے میں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل کی، جب وحی اتر چکی تو آپ نے فرمایا: ”عمرے کے بارے میں پوچھنے والا کہاں ہے؟“ فرمایا: ”خلوق کا نشان، یا زردی کا نشان دھو ڈالو، جبہ اتار دو، اور عمرے میں وہ سب کرو جو حج میں کرتے ہو“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 1819]
ليتني أرى رسول الله حين ينزل عليه الوحي فجاءه الوحي فأشار عمر إلى يعلى أن تعال فجاء يعلى فأدخل رأسه فإذا هو محمر الوجه يغط كذلك ساعة ثم سري عنه أين الذي يسألني عن العمرة آنفا أما الطيب الذي بك فاغسله ثلاث مرات وأما الجبة فانزعها ثم اصنع في عمرتك كما تصنع
ليتني أرى رسول الله حين ينزل عليه فأشار عمر إلى يعلى بيده أن تعال فجاء يعلى فأدخل رأسه فإذا النبي محمر الوجه يغط كذلك ساعة ثم سري عنه أين الذي يسألني عن العمرة آنفا أما الطيب الذي بك فاغسله ثلاث مرات وأما الجبة فانزعها ثم اصنع في عمرتك كما تصنع في حجك
أيسرك أن تنظر إلى النبي وقد أنزل الله عليه الوحي قلت نعم فرفع طرف الثوب فنظرت إليه له غطيط كغطيط البكر فلما سري عنه قال أين السائل عن العمرة اخلع عنك الجبة واغسل أثر الخلوق عنك وأنق الصفرة واصنع في عمرتك كما تصنع في حجك
ليتني أرى نبي الله حين ينزل عليه فجاءه الوحي فأشار عمر بيده إلى يعلى بن أمية تعال فجاء يعلى فأدخل رأسه فإذا النبي محمر الوجه يغط ساعة ثم سري عنه أين الذي سألني عن العمرة آنفا أما الطيب الذي بك فاغسله ثلاث مرات وأما الجبة فانزعها ثم اصنع في عمرتك ما تصنع ف
أيسرك أن تنظر إلى النبي وقد أنزل عليه الوحي فرفع عمر طرف الثوب فنظرت إليه له غطيط كغطيط البكر فلما سري عنه قال أين السائل عن العمرة اغسل عنك أثر الصفرة واخلع عنك جبتك واصنع في عمرتك ما أنت صانع في حجك
رجلا أتى النبي وعليه أثر خلوق وعليه جبة قال كيف تأمرني أن أصنع في عمرتي فأنزل الله تبارك و على النبي الوحي فلما سري عنه قال أين السائل عن العمرة قال اغسل عنك أثر الخلوق واخلع الجبة عنك واصنع في عمرتك ما صنعت في حجتك
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1819
1819. اردو حاشیہ: ➊ جعرانہ جیم کےکسرہ اورعین کےسکون کےساتھ یاجیم اور عین دونوں کے کسرہ اور راء مشدد کےساتھ۔مکہ سے مدینہ آنے والےراستے سے دائیں جانب کچھ دور ہٹ کر ایک منزل کا نام ہے۔یہاں آپ نے حنین کا مال غنیمت تقسیم فرمایت تھا یہیں سے احرام باندھ کر ایک عمرہ کیا تھا۔ ➋ احرام باندھتے وقت خوشبو لگانا جائز ہے خواہ بعدازاں اس کا اثر بھی باقی رہے۔مگر زعفران اورز ردرنگ یک خوشبو عام حالات میں بھی ممنوع ہے تو احرام میں احرم میں زیادہ ہی منع ہے۔ ➌ مرد کےلیے سلےہوئے لباس میں احرام نہیں صرف دو چادریں ہونی چاہئیں۔ ➍ لباس اتارتے ہوئے یا اتفاقاً سر پر کپڑا آپڑے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ ➎ حج اور عمرے کے احرم کے احکام ایک ہی ہیں۔مزید یہ بھی ثابت ہوا کہ ممنوعات سے بچنا بھی ایک عمل ہوتا ہے۔ ➏ شریعت سراسر منزل من اللہ اور وحی شدہ ہے۔ <قرآن> ﴿ وَما يَنطِقُ عَنِ الهَوىٰ* إِن هُوَ إِلّا وَحىٌ يوحىٰ﴾(سورة النجم:3، 4)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1819
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4985
´قرآن مجید قریش اور عرب کے محاورہ میں نازل ہوا` «. . . أَخْبَرَنِي صَفْوَانُ بْنُ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ، أَنَّ يَعْلَى، كَانَ يَقُولُ: لَيْتَنِي أَرَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ يُنْزَلُ عَلَيْهِ الْوَحْيُ، فَلَمَّا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْجِعْرَانَةِ وعَلَيْهِ ثَوْبٌ قَدْ أَظَلَّ عَلَيْهِ وَمَعَهُ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ مُتَضَمِّخٌ بِطِيبٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ تَرَى فِي رَجُلٍ أَحْرَمَ فِي جُبَّةٍ بَعْدَ مَا تَضَمَّخَ بِطِيبٍ؟ فَنَظَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاعَةً، فَجَاءَهُ الْوَحْيُ، فَأَشَارَ عُمَرُ إِلَى يَعْلَى أَنْ تَعَالَ، فَجَاءَ يَعْلَى، فَأَدْخَلَ رَأْسَهُ، فَإِذَا هُوَ مُحْمَرُّ الْوَجْهِ يَغِطُّ كَذَلِكَ سَاعَةً، ثُمَّ سُرِّيَ عَنْهُ، فَقَالَ: أَيْنَ الَّذِي يَسْأَلُنِي عَنِ الْعُمْرَةِ آنِفًا؟ فَالْتُمِسَ الرَّجُلُ، فَجِيءَ بِهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَمَّا الطِّيبُ الَّذِي بِكَ فَاغْسِلْهُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، وَأَمَّا الْجُبَّةُ فَانْزِعْهَا، ثُمَّ اصْنَعْ فِي عُمْرَتِكَ كَمَا تَصْنَعُ فِي حَجِّكَ . . .» ”. . . مجھے صفوان بن یعلیٰ بن امیہ نے خبر دی کہ (میرے والد) یعلیٰ کہا کرتے تھے کہ کاش میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت دیکھتا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی ہو۔ چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقام جعرانہ میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر کپڑے سے سایہ کر دیا گیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے چند صحابہ موجود تھے کہ ایک شخص کے بارے میں کیا فتویٰ ہے۔ جس نے خوشبو میں بسا ہوا ایک جبہ پہن کر احرام باندھا ہو۔ تھوڑی دیر کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آنا شروع ہو گئی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے یعلیٰ کو اشارہ سے بلایا۔ یعلیٰ آئے اور اپنا سر (اس کپڑے کے جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سایہ کیا گیا تھا) اندر کر لیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ اس وقت سرخ ہو رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیزی سے سانس لے رہے تھے، تھوڑی دیر تک یہی کیفیت رہی۔ پھر یہ کیفیت دور ہو گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ جس نے ابھی مجھ سے عمرہ کے متعلق فتویٰ پوچھا تھا وہ کہاں ہے؟ اس شخص کو تلاش کر کے آپ کے پاس لایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ جو خوشبو تمہارے بدن یا کپڑے پر لگی ہوئی ہے اس کو تین مرتبہ دھو لو اور جبہ کو اتار دو پھر عمرہ میں بھی اسی طرح کرو جس طرح حج میں کرتے ہو۔“[صحيح البخاري/كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ: 4985]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 4985 کا باب: «بَابُ نَزَلَ الْقُرْآنُ بِلِسَانِ قُرَيْشٍ وَالْعَرَبِ:» باب اور حدیث میں مناسبت: ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت مشکل ہے، کیوں ترجمۃ الباب میں قرآن مجید کا قریشی اور عربی زبان میں نازل ہونے کی وضاحت کی جا رہی ہے، جس حدیث کو پیش کیا گیا ہے اس کا تعلق قرآن مجید کے نزول سے نہیں ہے۔
چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بین طور پر یہ اقرار کیا کہ: «قد خفي دخول هذا الحديث فى هذا الباب على كثير من الائمة حتي قال ابن كثير فى ”تفسيره“ ذكر هذا الحديث فى الترجمة التى قبل هذه اظهر وابين»[فتح الباري لابن حجر: 9/10] یقیناً کئی ائمہ پر یہ بات مخفی رہی کہ یہاں پر ترجمۃ الباب سے حدیث کی کیا مناسبت ہو گی یہاں تک کہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں کہا کہ، اس حدیث کا تعلق اس باب کے ساتھ ہے جو اس سے قبل ہے، یہ زیادہ ظاہر اور واضح ہے۔
بعضے علماء نے یہاں تک کہا کہ اس حدیث کو درج کرنے میں اس جگہ پر کا تب سے غلطی ہو گئی ہے، کیوں کہ اس حدیث کا تعلق سابقہ باب سے ہے۔ لیکن جب غور کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ اس حدیث کو «نزل القرآن بلسان القريش العرب» میں لانے سے امام عالی مقام امام بخاری رحمہ اللہ کا بڑا مقصد ہے، جس کو وہ تحت الباب اور ترجمۃ الباب کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں اور اسی حل میں ترجمۃ الباب اور تحت الباب جو حدیث سیدنا لیلیٰ رضی اللہ عنہ سے نقل فرمائی ہے اسی میں مناسبت موجود ہے۔
ابن المنیر رحمہ اللہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے فرماتے ہیں: «كان ادخال هذا الحديث فى الباب الذى قبله اليق، لكن لعله قصة التنبيه على ان الوحي بالقرآن والسنة كان على صفة واحدة، وبلسان واحد .»[المتوري على ابواب البخاري: ص 387] ”اس حدیث کا تعلق پچھلے باب سے ہے، لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کا ارادہ اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کی وحی چاہے قرآن مجید کی ہو یا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہو، ان دونوں کا تعلق زبان کے اعتبار سے ایک ہی صفت کے ساتھ ہے۔“ ابن منیر رحمہ اللہ کی وضاحت سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کا پہلو پیدا ہوتا ہے کہ قرآن مجید اور حدیث رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم ان دنوں کا تعلق زبان عربی سے ہے اور صفت کے اعتبار سے دونوں ایک ہی ہیں، یعنی امام بخاری رحمہ اللہ یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ قرآن اور حدیث کا تعلق ایک شئی کے ساتھ ملحق ہے اور وہ شئی وحی ہے، جو من جانب اللہ ہوا کرتی ہے۔
ابن بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «مناسبة الحديث للترجمة: ان الوحي كله متلوا كان او غير متلو، انما نزل بلسان العرب»[شرح ابن بطال 218/10] ”حدیث کی مناسبت باب سے یہ ہے کہ وحی کا مکمل دارومدار متلو یا غیر متلو (حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم) پر ہے اور یقیناً یہ دونوں وحی عربی زبان میں نازل ہوئیں۔“
علامہ عینی رحمہ اللہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ”اس حدیث کو تحت الباب میں لانے سے امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض یہ ہے کہ اس بات پر تنبیہ کرنا کہ قرآن اور حدیث ان دونوں کا تعلق وحی کے ساتھ وابستہ ہے، جو کہ اس ایک ہی زبان میں نازل ہوئے۔“[عمدة القاري للعيني: 10/20]
امام قسطلانی رحمہ اللہ نے بھی قریب قریب یہی مناسبت دی ہے۔ [ارشاد الساري: 8/9]
امام جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: «ومناسبة حديثه للباب الاشارة الي ان القرآن نزل بلسان العرب مطلقاً قريش وغيرهم، لان السائل من غير قريش، وقد نزل الوحي فى جواب سؤاله بما يفهمه .»[التوشيح شرح الجامع الصحيح: 3199/7] ”ترجمۃ الباب اور حدیث کی مناسبت اس اشارہ میں ہے کہ قرآن مجید مطلق طور پر عربی اور قریش وغیرھم کی زبان میں نازل ہوا، کیوں کہ سائل (جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھا) وہ قریشی نہ تھا اور یقیناً وحی کے ذریعے اسے سوال کا جواب اس طرح دیا گیا کہ وہ (جواب) کو سمجھے۔“ امام سیوطی رحمہ اللہ کے جواب سے مناسبت کچھ یوں ہوئی کہ قرآن مجید جس طرح قریشی زبان اور اس کے علاوہ دوسرے عرب لہجے کی زبان میں نازل ہوا ہے، بعین حدیث وحی کے ذریعے بھی غیر قریشی زبان کے ذریعے لوگوں کے سوالات کے جوابات نازل کئے جاتے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر۔
مزید اگر غور کیا جائے تو ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت دوسرے پہلو سے بھی بنتی ہے، سیدنا صفوان بن یعلی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی کیفیت کا ذکر ہے اور یہ کیفیت وحی کے نزول کی طرف دلالت کرتی ہے، یعنی امام بخاری رحمہ اللہ یہ ثابت فرما رہے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جس طرح قرآن نازل ہوتا تھا، اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر حدیث بھی نازل ہوا کرتی تھی، اگرچہ وحی کی مختلف کیفیات ہیں، تاہم ان تمام وحی کا تعلق من جانب اللہ ہوا کرتا ہے، چاہے وہ قرآنی وحی ہو، یا غیر قرآنی، پس یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2710
´محرم کے لیے خلوق (خوشبو) کے استعمال کا بیان۔` یعلیٰ بن امیہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص عمرہ کا احرام باندھے ہوئے، سلے ہوئے کپڑے پہنے ہوئے اور خلوق لگائے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، وہ عمرہ کا احرام باندھے اور سلے ہوئے کپڑے پہنے ہوئے تھا، اور خلوق میں لت پت تھا، تو اس نے عرض کیا: میں نے عمرے کا احرام باندھ رکھا ہے تو میں کیا کروں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہی کرو جو حج میں کرتے ہو“، اس نے کہا: میں (حج میں) اس سے بچتا تھا، اور اسے دھو ڈالت [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2710]
اردو حاشہ: (1) اس شخص کا خیال تھا کہ یہ پابندیاں صرف حج میں ہیں، عمرے میں نہیں کیونکہ یہ اس کے مقابلے میں کم مرتبے والا ہے۔ آپ نے فرمایا: کہ دونوں کے احرام میں کوئی فرق نہیں۔ دونوں میں پابندیاں ایک جیسی ہیں۔ احرام، حج اور عمرہ وغیرہ شریعت اسلامیہ سے پہلے بھی عرب میں رائج تھے۔ اور یہ پابندیاں بھی معروف تھیں اور یہ سابقہ انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات تھیں۔ (2)”خلوق“ یہ بھی ایک رنگ دار خوشبو ہے زعفران کی طرح لہٰذا اس کا حکم ہر لحاظ سے زعفران کی طرح ہے، یعنی مردوں کے لیے ہر حال میں منع ہے اور عورتوں کے لیے صرف احرام میں ممنوع ہے۔ اس کے علاوہ جائز ہے۔ (3)”وہی عمرے میں کر۔“ یہاں حج اور عمرے کے افعال مراد نہیں بلکہ صرف احرام مراد ہے، یعنی دونوں کا احرام ایک جیسا ہوتا ہے۔ (4) چونکہ وہ شخص شرعی احکام سے ناواقف تھا، اس لیے اسے معذور تصور فرمایا۔ اب بھی کسی سے لا علمی کی بنا پر اس قسم کی کوئی غلطی سر زد ہو جائے تو ان شاء اللہ معذور ہوگا۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2710
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2711
´محرم کے لیے خلوق (خوشبو) کے استعمال کا بیان۔` یعلیٰ بن امیہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ جعرانہ میں تھے، وہ جبہ پہنے ہوئے تھا، اور اپنی داڑھی اور سر کو (زعفران سے) پیلا کیے ہوئے تھا۔ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے عمرے کا احرام باندھ رکھا ہے اور میں جس طرح ہوں آپ مجھے دیکھ رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جبہ اتار دو اور زردی اپنے سے دھو ڈالو، اور جو حج میں کرتے ہو وہی اپنے عمرہ میں بھی کرو۔“[سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2711]
اردو حاشہ: جبہ بھی قمیص ہی کی ایک صورت ہے۔ یہ بھی سلا ہوا ہوتا ہے، لہٰذا محرم کے لیے منع ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2711
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:808
808-صفوان بن یعلیٰ اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں: ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ”جعرانہ“ کے مقام پر موجود تھے۔ ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس نے جبہ پہنا ہوا تھا۔ اور وہ خوشبو میں لتھڑا ہوا تھا۔ اس نے عرض کی: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! میں نے عمرے کا احرام باندھ لیا ہے اور یہ پہنا ہوا ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم نے حج کرنا ہوتا، تو تم کیا کرتے؟“ اس نے عرض کی۔ پھر میں اس خوشبو کو دھولیتا اور اس قبے کواتا ر دیتا (اور ان سلا لباس پہنتا) تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو تم نے اپنے حج میں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:808]
فائدہ: اس سے ثابت ہوا کہ محرم اپنے کپڑوں سے تین بارخوشبو کو دھوئے گا حیسا کہ بخاری: 1536 میں صراحت ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 809
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2798
حضرت صفوان بن لیلیٰ بن امیہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ میں تھے، وہ ایک جبہ (لمبا کوٹ) پہنے ہوئے تھا، جس پر ایک مخلوط خوشبو لگی ہوئی تھی یا اس پر زردی کا اثر تھا تو اس نے آپﷺ سے پوچھا: آپ مجھے میرے عمرے میں کیا کرنے کا حکم دیتے ہیں؟ راوی کہتے ہیں، آپﷺ پر وحی کا نزول ہونے لگا اور آپﷺ کو ایک کپڑے سے ڈھانپ دیا گیا اور یعلیٰ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں،... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:2798]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: 1۔ اس حدیث سے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، امام اسحاق رحمۃ اللہ علیہ اور امام داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے یہ استدلا ل کیا ہے کہ اگر کوئی انسان جہالت وناواقفیت سے یا بھول کر خوشبودار کپڑا پہن لے تو اس پر کفارہ نہیں ہے علم ہوتے ہی اسے فوراً ایسا کپڑا اتار دینا چاہیے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس پر فدیہ ہے اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے دونوں اقوال منقول ہیں۔ امام ابن قدامہ نے عدم کفارہ کے قول کو ترجیح دی ہے۔ (خُلُوق) اس خوشبو کو کہتے ہیں جس میں زعفران وغیرہ کی آمیزش ہو۔ 2۔ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پروحی قرآن کے علاوہ بھی اترتی تھی جو سنت میں محفوظ ہے، فرق یہ ہے کہ اگر آپﷺ پر الفاظ اور معانی دونوں کا نزول ہوتا تو اس وحی کو قرآن کی صورت میں محفوظ کیا جاتا تھا اور یہ وحی متلو کہلاتی ہے کیونکہ اس کو نماز میں پڑھا جاتا ہے اگر صرف معانی اور مفاہیم ومطالب کا نزول ہوتا یا الفاظ کا نزول ہوتا لیکن ان کی تلاوت کا حکم نہ ہوتا اور نہ کہ قرآنی شکل ملتی تو وہ جی غیر متلو کہلاتی اور حدیث نبوی یا حدیث قدسی کی شکل میں محفوظ کی جاتی۔ جعرانہ میں آپﷺ غزوہ طائف سے واپسی کے وقت ٹھہری ہوئے تھے یہ آٹھ ہجری ذوالقعدہ کا واقعہ ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2798
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2799
حضرت صفوان بن یعلیٰ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ میں تھے، ایک آدمی آیا اور میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر تھا، وہ سلے ہوئے کپڑے یعنی جبہ پہنے ہوئے تھا اور وہ خُلوق سے لت پت تھا تو اس نے کہا، میں نے عمرہ کا احرام باندھا ہے اور میں نے اسے پہنا ہوا ہے اور میں خوشبو سے بسا ہوا ہوں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: ”تم حج میں کیا کرتے؟“ اس... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:2799]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) مُقَطَّعَات: کاٹ، کر، الگ الگ کرکے، جسم کے مطابق سلے ہوئے۔ (2) مُتَضَمِّخٌ: لت پت، کثرت سے استعمال کیے ہوئے۔ فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ انسان حج کے آداب واحکام سے واقف تھا، اس لیے اس کو اتنا بتانا ہی کافی تھا کہ اس طرح کرو، جس طرح حج میں کرتے ہو۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2799
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1790
1790. حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ سے عرض کیا۔ جبکہ میں اس وقت نوعمر تھا۔ درج ذیل ارشاد باری تعالیٰ کے بارے میں آپ کیا فرماتی ہیں: ”صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے اس کے لیے ان کی سعی کرنے میں کوئی حرج نہیں۔“ میرا خیال ہے کہ اگر کوئی ان کی سعی نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ حضرت عائشہ ؓ نے یہ سن کرفرمایا: ایسا ہرگز نہیں۔ اگر مطلب یہ ہوتا جیسا کہ تم کہہ رہے ہو تو آیت یوں ہوتی: اس پر کوئی گناہ نہیں اگر وہ ان کاطواف نہ کرے۔ لیکن یہ آیت تو انصار کے متعلق نازل ہوئی جو منات کے لیے احرام باندھتے تھے جو قدید کے سامنے رکھا ہوا تھا۔ اور وہ صفا اور مروہ کی سعی کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ جب اسلام آیا تو انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کیا تو اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:1790]
حدیث حاشیہ: یہ اس لیے کہ اللہ پاک نے صفا اور مروہ پہاڑیوں کو بھی اپنے شعائر قرا ر دیا ہے اور اس سعی سے ہزار ہا سال قبل کے اس واقعہ کی یاد تازہ ہوتی ہے جب کہ حضرت ہاجرہ ؑ نے اپنے نور نظر اسماعیل ؑ کے لیے یہاں پانی کی تلاش میں چکر لگائے تھے اور اس موقع پر چشمہ زمزم کا ظہور ہوا تھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1790
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4329
4329. حضرت یعلیٰ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: کاش میں رسول اللہ ﷺ کو اس حالت میں دیکھو جب آپ پر وحی نازل ہو رہی ہو۔ ایک دفعہ آپ جعرانه میں تشریف فرما تھے۔ آپ پر ایک کپڑے سے سایہ کیا گیا تھا۔ اس مقام پر آپ کے ہمراہ صحابہ کرام ؓ بھی تھے۔ اچانک ایک دیہاتی آیا جس پر خوشبو سے لت پت جبہ تھا۔ اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! اس شخص کے متعلق آپ کا کیا حکم ہے جس نے عمرے کا احرام ایسے جبے میں باندھا ہے جو خوشبو سے لت پت ہے؟ حضرت عمر ؓ نے اپنے ہاتھ سے حضرت یعلیٰ ؓ کو اشارہ کیا کہ آؤ (اور نزول وحی کی حالت کو دیکھو) چنانچہ حضرت یعلیٰ ؓ آئے اور اپنا سر اس پردے میں داخل کیا، دیکھتے ہیں کہ نبی ﷺ کا چہرہ انور سرخ ہے، کچھ دیر تک آپ خراٹے لیتے رہے، پھر یہ حالت جاتی رہی تو آپ نے فرمایا: ”وہ شخص کہاں ہے جس نے ابھی ابھی عمرے کے متعلق سوال کیا تھا؟“ اسے تلاش کر کے آپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4329]
حدیث حاشیہ: اس حدیث کی بحث کتاب الحج میں گزر چکی ہے۔ قسطلانی نے کہا حجۃ الوداع کی حدیث اس کی ناسخ ہے اور یہ حدیث منسوخ ہے۔ حجۃ الوداع کی حدیث میں مذکور ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے احرام باندھتے وقت آنحضرت ﷺ کو خوشبو لگائی تھی۔ لہذا خوشبو کا استعمال جائز ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4329
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4985
4985. سیدنا یعلیٰ بن امیہ ؓ سے روایت ہے وہ کہتے تھے کاش! میں رسول اللہ ﷺ کو اس وقت دیکھوں جبکہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہو، چنانچہ جب آپ مقام جعرانہ میں تھے اور آپ ہر کپڑے کا سایہ کر دیا گیا تھا اس وقت آپ کے ہمراہ چند ایک صحابہ کرام ؓم بھی تھے۔ اچانک ایک شخص آیا جو خوشبو میں لت پت تھا۔ اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! ایسے شخص کے بارے میں کیا فتویٰ ہے جس نے خوشبو سے لت پت ہو کر ایک جبے میں احرام باندھا ہو؟ نبی کریم ﷺ نے کچھ انتظار کیا، اس دوران میں آپ پر وحی آنا شروع ہو گئی۔ سیدنا عمر ؓ نے سیدنا یعلیٰ ؓ کو اشارے سے بلایا۔ وہ آئے اور اپنا سر پردے کے اندر کیا تو دیکھتے ہیں کہ آپ کا چہرہ انور سرخ ہو رہا تھا اور آپ تیزی سے سانس لے رہے تھے۔ تھوڑی دیر یہی کیفیت طاری رہی، پھر جب یہ حالت ختم ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ شخص کہاں ہے جو مجھ سے ابھی ابھی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4985]
حدیث حاشیہ: اکثر علماء نے کہا ہے کہ یہ حدیث اس باب سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ اگلے باب کے متعلق ہے اور شاید کاتب نے غلطی سے یہاں اسے درج کر دیا ہے۔ بعضوں نے کہا اس باب میں یہ حدیث اس لئے لائے کہ حدیث بھی قرآن کی طرح وحی ہے اور وہ بھی قریش کے محاورے پر اتری ہے۔ یہ حدیث کتاب الحج میں بھی گزر چکی ہے۔ خوشبو کے بارے میں یہ حکم بعد میں منسوخ ہو گیا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4985
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1789
1789. حضرت یعلیٰ بن امیہ ؓ سے روایت ہے، جب نبی کریم ﷺ جعرانہ میں تشریف فر تھے تو ایک آدمی آپ کےپاس آیا۔ اس نے ایسا جبہ پہن رکھا تھا جس پر خلوق یا زردی کے نشانات تھے۔ اس نے عرض کیا: آپ مجھے عمرہ کرنے کے بارے میں کیا حکم دیتے ہیں؟اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ پر وحی نازل فرمائی۔ اس دوران میں آپ کو کپڑے سے ڈھانپ دیا گیا۔ میری خواہش تھی کہ میں نبی کریم ﷺ پر نزول وحی کی کیفیت دیکھوں۔ حضرت عمر رضی ؓ نے فرمایا: آؤ، کیاتم نبی کریم ﷺ پر نزول وحی کی کیفیت دیکھنا چاہتے ہو؟میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ انھوں نے کپڑے کا کنارہ اٹھایا تو میں نے آپ ﷺ کو بایں حالت دیکھا کہ آپ سے خراٹے بھرنے کی آواز آرہی تھی۔ یہ آواز اونٹ کے بلبلانے کی طرح تھی۔ جب آپ سے یہ کیفیت زائل ہوئی تو آپ نے فرمایا: ”عمرے کے متعلق سوال کرنے والاآدمی کہاں ہے؟ (اسے فرمایا:) اپنا جبہ اتار دو اور اپنے جسم سے خوشبو کے اثرات دھو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:1789]
حدیث حاشیہ: (1) وقوف اور رمی کے علاوہ عمرہ کرتے وقت وہی کام کیے جائیں جو حج میں کیے جاتے ہیں، نیز عمرہ کرتے وقت ان کاموں سے پرہیز کرو جو حج میں نہیں کیے جاتے۔ (2) عمرے کے چار ارکان ہیں: احرام، طواف، سعی اور آخر میں حلق یا تقصیر۔ (3) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سائل قبل ازیں احکام حج سے واقف تھا۔ زمانۂ جاہلیت میں لوگ حج کے لیے خلوق استعمال کرتے تھے اور یہ سہولتیں انہیں عمرے میں بھی حاصل تھیں لیکن رسول اللہ ﷺ نے دوران عمرہ میں ہر قسم کی خوشبو استعمال کرنے سے منع فرمایا بلکہ اگر پہلے سے لگی ہوئی تھی تو اسے دھونے کا حکم دیا۔ (عمدةالقاري: 426/7)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1789
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1790
1790. حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ سے عرض کیا۔ جبکہ میں اس وقت نوعمر تھا۔ درج ذیل ارشاد باری تعالیٰ کے بارے میں آپ کیا فرماتی ہیں: ”صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے اس کے لیے ان کی سعی کرنے میں کوئی حرج نہیں۔“ میرا خیال ہے کہ اگر کوئی ان کی سعی نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ حضرت عائشہ ؓ نے یہ سن کرفرمایا: ایسا ہرگز نہیں۔ اگر مطلب یہ ہوتا جیسا کہ تم کہہ رہے ہو تو آیت یوں ہوتی: اس پر کوئی گناہ نہیں اگر وہ ان کاطواف نہ کرے۔ لیکن یہ آیت تو انصار کے متعلق نازل ہوئی جو منات کے لیے احرام باندھتے تھے جو قدید کے سامنے رکھا ہوا تھا۔ اور وہ صفا اور مروہ کی سعی کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ جب اسلام آیا تو انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کیا تو اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:1790]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حج کی طرح عمرہ کرتے ہوئے صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا ضروری ہے، صرف وقوف عرفہ اور رمی جمار عمرہ میں نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے صفا اور مروہ کو اپنی نشانیاں قرار دیا ہے۔ ان کے درمیان سعی کرنے سے ہزار ہا سال پہلے پیش آنے والے اس واقعے کی یاد تازہ ہو جاتی ہے جب حضرت ہاجرہ ؑ نے اپنے نور نظر سیدنا اسماعیل ؑ کے لیے پانی کی تلاش میں والہانہ طور پر چکر لگائے تھے، پھر اس کے نتیجے میں چشمۂ زم زم ظاہر ہوا تھا۔ (2) حدیث کے آخر میں امام بخاری ؒ کی پیش کردہ سفیان کی روایت کو طبری نے متصل سند سے بیان کیا ہے لیکن یہ مرفوع نہیں بلکہ اس میں صرف موقوف حصہ بیان ہوا ہے اور ابو معاویہ کی روایت کو امام مسلم نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: "اللہ تعالیٰ اس شخص کا حج یا عمرہ پورا نہیں کرے گا جو صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہیں کرتا۔ " (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 3079(1277)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1790
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4329
4329. حضرت یعلیٰ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: کاش میں رسول اللہ ﷺ کو اس حالت میں دیکھو جب آپ پر وحی نازل ہو رہی ہو۔ ایک دفعہ آپ جعرانه میں تشریف فرما تھے۔ آپ پر ایک کپڑے سے سایہ کیا گیا تھا۔ اس مقام پر آپ کے ہمراہ صحابہ کرام ؓ بھی تھے۔ اچانک ایک دیہاتی آیا جس پر خوشبو سے لت پت جبہ تھا۔ اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! اس شخص کے متعلق آپ کا کیا حکم ہے جس نے عمرے کا احرام ایسے جبے میں باندھا ہے جو خوشبو سے لت پت ہے؟ حضرت عمر ؓ نے اپنے ہاتھ سے حضرت یعلیٰ ؓ کو اشارہ کیا کہ آؤ (اور نزول وحی کی حالت کو دیکھو) چنانچہ حضرت یعلیٰ ؓ آئے اور اپنا سر اس پردے میں داخل کیا، دیکھتے ہیں کہ نبی ﷺ کا چہرہ انور سرخ ہے، کچھ دیر تک آپ خراٹے لیتے رہے، پھر یہ حالت جاتی رہی تو آپ نے فرمایا: ”وہ شخص کہاں ہے جس نے ابھی ابھی عمرے کے متعلق سوال کیا تھا؟“ اسے تلاش کر کے آپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4329]
حدیث حاشیہ: 1۔ یعلیٰ سے مراد حضرت یعلیٰ بن صفوان تمیمی ؓ ہیں۔ حضرت عمر ؓ نے انھیں خدمت گزاری کے طور پر ساتھ رکھا تھا۔ 2۔ چونکہ یہ واقعہ مقام جعرانہ پرپیش آیا جہاں اموال غنیمت تھے، اس مناسبت سے امام بخاری ؒ نے اسے بیان کیا ہے۔ 3۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ احرام کے بعد خوشبو لگانا جائز نہیں، البتہ اگراحرام سے پہلے خوشبو لگائی ہو اور بدن پر اس کے اثرات احرام کے بعد باقی رہ جائیں تو کوئی حرج نہیں۔ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ وہ احرام سے پہلے رسول اللہ ﷺ کو خوشبو لگاتی تھیں جس کا اثر احرام کے بعدباقی رہتا تھا۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1538) 4۔ یہ حجۃ الوداع کا واقعہ ہے جو اس واقعے کے بعد ہوا، لہذا اس کوترجیح ہوگی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4329
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4985
4985. سیدنا یعلیٰ بن امیہ ؓ سے روایت ہے وہ کہتے تھے کاش! میں رسول اللہ ﷺ کو اس وقت دیکھوں جبکہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہو، چنانچہ جب آپ مقام جعرانہ میں تھے اور آپ ہر کپڑے کا سایہ کر دیا گیا تھا اس وقت آپ کے ہمراہ چند ایک صحابہ کرام ؓم بھی تھے۔ اچانک ایک شخص آیا جو خوشبو میں لت پت تھا۔ اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! ایسے شخص کے بارے میں کیا فتویٰ ہے جس نے خوشبو سے لت پت ہو کر ایک جبے میں احرام باندھا ہو؟ نبی کریم ﷺ نے کچھ انتظار کیا، اس دوران میں آپ پر وحی آنا شروع ہو گئی۔ سیدنا عمر ؓ نے سیدنا یعلیٰ ؓ کو اشارے سے بلایا۔ وہ آئے اور اپنا سر پردے کے اندر کیا تو دیکھتے ہیں کہ آپ کا چہرہ انور سرخ ہو رہا تھا اور آپ تیزی سے سانس لے رہے تھے۔ تھوڑی دیر یہی کیفیت طاری رہی، پھر جب یہ حالت ختم ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ شخص کہاں ہے جو مجھ سے ابھی ابھی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4985]
حدیث حاشیہ: 1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اس حدیث سے مقصود یہ ہے کہ قرآن وسنت ایک ہی وحی اورایک ہی زبان میں ہیں۔ یہ لغت قریش کے ساتھ خاص نہیں بلکہ عام زبان میں ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دیہاتی کو عربی زبان میں وہی جواب دیا جو بذریعہ وحی آپ پر نازل ہوا تھا اور وہ جواب قطعی طور پر قریش کے محاورے کے مطابق نہ تھا کیونکہ وسائل قریشی نہیں بلکہ عام دیہاتی تھا جیسا کہ دیگر روایات میں اس کی صراحت ہے، چنانچہ قرآن کریم میں ہے: ”اللہ تعالیٰ ہر رسول کو قومی زبان دے کر مبعوث فرماتا ہے۔ “(إبراهیم: 4/14) 2۔ اس سے مراد لغت قریش نہیں بلکہ تمام اہل عرب کی زبان ہے کیونکہ آپ صرف قریش ہی کے لیے نہیں بلکہ تمام اہل عرب کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ واللہ اعلم۔ (فتح الباري: 14/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4985