عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ضباعہ بنت زبیر بن عبدالمطلب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: اللہ کے رسول! میں حج میں شرط لگانا چاہتی ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، (لگا سکتی ہو)“، انہوں نے کہا: تو میں کیسے کہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہو! «لبيك اللهم لبيك، ومحلي من الأرض حيث حبستني»”حاضر ہوں اے اللہ حاضر ہوں، اور میرے احرام کھولنے کی جگہ وہی ہے جہاں تو مجھے روک دے“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 1776]
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1776
1776. اردو حاشیہ: ➊ سیدہ ضباعہ رسول اللہ ﷺ کی چچازاد بہن ہیں اور ان کی کنیت ام حکیم ہے۔ ➋ اگر انسان کوکوئی ایسامرض لاحق ہو جوسفر اور اعمال حج کے لیے رکاوٹ بن سکتا ہو تو مندرجہ ذیل بالا اندازہ میں شرط کرکے احرام باندھ سکتا ہے اور جہاں رکاوٹ ہو جائے حلال ہو سکتاہے اور دوبارہ اس حج یاعمرے کی قضا لازم نہ ہوگی۔ تاہم صاحب استطاعت کے لیے قضا ضروری ہوگی۔واللہ اعلم۔ ➌ سیدہ ضباعہ بنت زبیر نے یہ شرط لگائی تھی مگر رکاوٹ پیش نہ آئی تھی اور انہون نے حج پورا کر لیا تھا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1776
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2766
´حج میں شرط لگا نے کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ضباعہ رضی اللہ عنہ نے حج کا ارادہ کیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ شرط کر لیں ۱؎ تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ایسا ہی کیا۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2766]
اردو حاشہ: (1) یہ روایت مجمل ہے۔ تفصیل یوں ہے کہ حضرت ضباعہ بنت زبیر بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ بیمار تھیں۔ انھیں خطرہ تھا کہ بیماری بڑھ سکتی ہے۔ ادھر حج کا وقت قریب تھا۔ انھوں نے یہ اشکال رسول اللہﷺ کے سامنے پیش کیا تو آپ نے فرمایا: ”تم احرام کے وقت یہ شرط لگا لو کہ یا اللہ! جہاں میں عاجز آگئی حلال ہو جاؤں گی۔ اگر راستے میں بیماری بڑھ جائے اور تم عاجز آجاؤ تو احرام کھول لینا۔“ ان الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس پہ دم یا قضا واجب نہیں ہوگی۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور محدثین اسی کے قائل ہیں۔ دیگر اہل علم شرط کے قائل نہیں۔ وہ اس روایت کو حضرت ضباعہؓ کے ساتھ خاص کرتے ہیں مگر اس تخصیص کی دلیل چاہیے، خصوصاً جبکہ حضرت عمر، عثمان، علی ابن مسعود اور عائشہ رضی اللہ عنہم جیسے مجتہد صحابہ بھی شرط کے قائل ہیں۔ (2) حدیث حج کے متعلق ہے لیکن عمرے کا حکم بھی یہی ہے۔ (3) اس حدیث میں عذر بیماری کا ہے۔ لیکن دوسرے اعذار کا حکم بھی یہی ہے۔ (4) اگر قربانی کا جانور ساتھ ہو تو وہیں ذبح کر دیا جائے گا، خواہ حل ہو یا حرم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2766
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2767
´جب شرط لگائے تو کس طرح کہے؟` ہلال بن خباب کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن جبیر سے اس شخص کے بارے میں پوچھا جو مشروط حج کر رہا ہو تو انہوں نے کہا: یہ شرط بھی اس طرح ہے جیسے لوگوں کے درمیان اور شرطیں ہوتی ہیں ۲؎ تو میں نے ان سے ان کی یعنی عکرمہ کی حدیث بیان کی، تو انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ضباعہ بنت زبیر بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میں حج کرنا چاہتی ہوں، تو کیسے کہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2767]
اردو حاشہ: ”شرط لوگوں کے درمیان ہوتی ہے“ چونکہ حضرت سعید بن جبیر کو مذکورہ حدیث کا علم نہیں تھا، لہٰذا انھوں نے ایسے کہا۔ جب نبیﷺ شرط لگوا رہے ہیں تو پھر کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2767
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2938
´حج میں شرط لگانا جائز ہے۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ضباعہ بنت زبیر بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: میں ایک بھاری بھر کم عورت ہوں، اور میں حج کا ارادہ بھی رکھتی ہوں، تو میں تلبیہ کیسے پکاروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم تلبیہ پکارو اور (اللہ سے) شرط کر لو کہ جہاں تو مجھے روکے گا، میں وہیں حلال ہو جاؤں گی“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2938]
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) بیمار آدمی حج یا عمرے کی نیت سے سفر کرسکتا ہےاگرچہ بیماری میں اضافے کا خوف ہو۔
(2) اگر مرض کی وجہ سے یہ خطرہ ہو کہ سفر میں رکاوٹ پیش آجائے گی تو احرام باندھتے وقت مشروط احرام باندھا جائے یعنی یہ کہا جائے کہ اے اللہ! اگر رکاوٹ پیش آگئی تو میں وہیں احرام کھول دوں گا۔
(3) مشروط احرام باندھ کر کیا ہوا حج یا عمرہ اگر پورا ہوجائے تو یہ عام حج اور عمرے کی طرح ہے اس کے ثواب میں کمی نہیں آئے گی۔
(4) مشروط احرام کے بعد اگر حج یا عمرہ مکمل کیے بغیر احرام کھول کر ارادہ ختم کرنا پڑجائے تو کوئی کفارہ لازم نہیں آئےگا نہ دم لازم ہوگا نہ صدقہ وغیرہ۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2938
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 941
´حج میں شرط لگا لینے کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ضباعہ بنت زبیر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: اللہ کے رسول! میں حج کا ارادہ رکھتی ہوں، تو کیا میں شرط لگا سکتی ہوں؟ (کہ اگر کوئی عذر شرعی لاحق ہوا تو احرام کھول دوں گی) آپ نے فرمایا: ”ہاں، تو انہوں نے پوچھا: میں کیسے کہوں؟ آپ نے فرمایا: «لبيك اللهم لبيك لبيك محلي من الأرض حيث تحبسني»”حاضر ہوں اے اللہ حاضر ہوں حاضر ہوں، میرے احرام کھولنے کی جگہ وہ ہے جہاں تو مجھے روک دے۔“[سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 941]
اردو حاشہ: 1؎: یہ لوگ ضباعہ بنت زبیرکی روایت کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ ضباعہ ہی کے ساتھ خاص تھا، ایک تاویل یہ بھی کی گئی ہے کہ ' محلي حيث حبسني ' (میرے احرام کھولنے کی جگہ وہی ہے جہاں تومجھے روک دے) کا معنی ' محلي حيث حبسني الموت' (میرے احرام کھولنے کی جگہ وہی ہے جہاں تونے مجھے موت دے دی) ہے کیونکہ مرجانے سے احرام خودبخودختم ہوجاتا ہے لیکن یہ دونوں تاویلیں باطل ہیں، ایک قول یہ ہے کہ شرط خاص عمرہ سے تحلل کے ساتھ ہے حج کے تحلل سے نہیں، لیکن ضباعہ کا واقعہ اس قول کو باطل کردیتا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 941