الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابي داود
كِتَاب الزَّكَاةِ
کتاب: زکوۃ کے احکام و مسائل
33. باب فِي حُقُوقِ الْمَالِ
33. باب: مال کے حقوق کا بیان۔
حدیث نمبر: 1657
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:" كُنَّا نَعُدُّ الْمَاعُونَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَارِيَةَ الدَّلْوِ وَالْقِدْرِ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہم ڈول اور دیگچی عاریۃً دینے کو «ماعون» ۱؎ میں شمار کرتے تھے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الزَّكَاةِ/حدیث: 1657]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف:9273)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الکبری/التفسیر (11701)، مسند احمد 387) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: عام استعمال کی ایسی چیزیں جنہیں عام طور پر لوگ ایک دوسرے سے عاریۃ لیتے رہتے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

   صحيح مسلمهممت أن آمر رجلا يصلي بالناس ثم أحرق على رجال يتخلفون عن الجمعة بيوتهم
   سنن أبي داودنعد الماعون على عهد رسول الله عارية الدلو والقدر

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 1657 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1657  
1657. اردو حاشیہ:
➊ سورت الماعون میں ہے۔(فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ ﴿٤﴾ الَّذِينَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ ﴿٥﴾ الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ ﴿٦﴾ وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ) ہلاکت ہے ان نمازیوں کےلئے جو اپنی نمازوں سے غافل ہیں۔ دکھلاوا کرتے ہیں اور برتنے کی چیزیں نہیں دیتے۔ یقیناً عام استعمال کی چیزیں لینا دینا معاشرتی زندگی کا لازمہ ہیں۔ اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین اسے مال کا شرعی حق سمجھتے تھے۔
➋ کھلے دل سے عام چیزیں عاریتاًدے دینا عمدہ اخلاق کی دلیل ہے۔مگر اس میں یہ نہیں کہ کوئی مانگے تانگے ہی سے گزر بسر شروع کردے۔ یہ سوچ ار عمل از حد پستی کا غماز ہے۔ہاں کبھی کوئی ضرورت پڑے تو عیب نہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1657   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1485  
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان لوگوں کے بارے میں جو پیچھے رہے تھے جاتے ہیں۔ فرمایا: میں نے ارادہ کیا کہ کسی آدمی کو لوگوں کی جماعت کرانے کا حکم دوں، پھر ان لوگوں کو جو جمعہ سے پیچھے رہتے ہیں، ان کے گھروں سمیت جلا دوں۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1485]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
احادیث مذکورہ بالا سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے بارے میں جو بلاسبب اور عذر نماز میں حاضر نہیں ہوتے فرمایا:
یہ مفاد پرست لوگ ہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں صرف منافق ہی عشاء اور فجر کی نمازوں میں خصوصی طور پر شریک نہیں ہوتے تھے کیونکہ اس دور میں نماز میں روشنی کا انتظام نہ ہونے کی بنا پر اندھیرے میں ہوتی تھیں اور ان کا پوشیدہ رہ جانا ممکن تھا ان کے نفاق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا اگر ان کو ان نمازوں کی خیرو برکت اور اجرو ثواب کا یقینی ہو یا ان کو اس بات کا علم ہو کہ ان کو گوشت سے بھر پور ہڈی ملے گی تو یہ نماز میں مشقت اور دشواری برداشت کرتے ہوئے گھٹنوں کے بل چل کر آئیں۔
(2)
جو لوگ جماعت میں حاضر نہیں ہوتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں پختہ ارادہ فرمایا کہ ان سمیت ان کےگھروں کو آگ سے جلا دیں لیکن پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارادہ پر صرف اس لیے عمل نہ کیا کہ گھروں میں عورتیں اور بچے بھی ہوتے ہیں اور ان کے لیے جماعت ضروری نہیں ہے اور نہ یہ مسجد میں آنے کے پابند ہیں۔
(3)
وہ روایات جن سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ منفرد کو ایک درجہ ثواب ملتا ہے ان سے ثابت ہوتا ہے۔
بلا عذر اور بلا سبب جماعت ترک کرنے والے کی نماز تو ہو جائے گی لیکن وہ گناہ گار ہو گا اس کو نماز دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
(4)
جماعت کے فرض عین ہونے کے بارے میں اختلاف ہے حنفیوں،
مالکیوں اور شافعیوں کی اکثریت نماز باجماعت کو سنت مؤکدہ قرار دیتی ہے لیکن ان حضرات میں سے کچھ لوگ جماعت کو فرض کفایہ قرار دیتے ہیں کہ اگر کچھ لوگ اس فرض کو ادا کر لیں تو باقی کے ذمہ سے یہ ساقط ہو جائے گا۔
اس وجہ سے احناف اور شوافع کے نزدیک اگر کسی بستی کے سارے باشندے باجماعت نماز نہ پڑھیں تو ان سے جنگ کی جائے گی حنابلہ اور محدثین کے نزدیک باجماعت نماز پڑھنا فرض عین ہے یعنی ہر شخص کی انفرادی اور شخصی ذمہ داری ہے کہ وہ جمعہ اور جماعت میں شریک ہو۔
ظاہریوں اور امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نماز کی صحت و درستگی کے لیے جماعت شرط ہے جو جماعت میں شریک نہیں ہوتا اس کی نماز نہیں ہوتی۔
احادیث کا تقاضا یہی ہے کہ انسان کو جماعت میں شریک ہونا چاہیے بلا سبب اور بلا عذر جماعت سے محروم ہونا عملی نفاق کی نشانی ہے خیرو برکت اور اجروثواب سے محرومی ہے اور اس کو عادت اور وطیرہ بنا لینے کی صورت میں خطرہ ہے کہ شاید ایسے انسان کی نماز ہی نہ ہو۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1485