عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صدقہ مالدار کے لیے حلال نہیں اور نہ طاقتور اور مضبوط آدمی کے لیے (حلال ہے)“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے سفیان نے سعد بن ابراہیم سے ایسے ہی روایت کیا ہے جیسے ابراہیم نے کہا ہے نیز اسے شعبہ نے سعد سے روایت کیا ہے، اس میں «لذي مرة سوي» کے بجائے «لذي مرة قوي» کے الفاظ ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی بعض روایات میں «لذي مرة قوي» اور بعض میں «لذي مرة سوي» کے الفاظ ہیں۔ عطا بن زہیر کہتے ہیں: عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا: «إن الصدقة لا تحل لقوي ولا لذي مرة سوي» ۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الزَّكَاةِ/حدیث: 1634]
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1634
1634. اردو حاشیہ: (قوی) سے مراد جسمانی طاقت (مرۃ) مراد کمانے کی طاقت اور (سوی) سے مراد صحیح الاعضاء ہونا ہے۔ اور ایسے افراد کو بغیرشرعی استحقاق کے سوال کرنا حرام اور بغیر شرعی جواز کے صدقہ دینا ناناجائز ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1634
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 652
´زکاۃ لینا کس کس کے لیے جائز نہیں؟` عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی مالدار کے لیے مانگنا جائز نہیں اور نہ کسی طاقتور اور صحیح سالم شخص کے لیے مانگنا جائز ہے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الزكاة/حدیث: 652]
اردو حاشہ: 1؎: ((ذِي مِرَّةٍ)) کے معنی ذی قوّۃ کے ہیں اور ((سَوِیّ)) کے معنی جسمانی طور پر صحیح و سالم کے ہیں۔
2؎: یعنی ((لَا تَحِلُّ لَه الصَّدَقّةُ)) میں صدقہ مسئلہ (مانگنے) کے معنی میں ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 652