عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ بنی متعان کے ایک فرد متعان اپنے شہد کا عشر (دسواں حصہ) لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے اس کے ایک سلبہ نامی جنگل کا ٹھیکا طلب کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جنگل کو ٹھیکے پردے دیا، جب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو سفیان بن وہب نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو خط لکھا، وہ ان سے اس کے متعلق پوچھ رہے تھے، عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں (جواب میں) لکھا ”اگر ہلال تم کو اسی قدر دیتے ہیں، جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے یعنی اپنے شہد کا دسواں حصہ، تو سلبہ کا ان کا ٹھیکا قائم رکھو اور اگر وہ ایسا نہ کریں تو مکھیاں بھی جنگل کی دوسری مکھیوں کی طرح ہیں، جو چاہے ان کا شہد کھا سکتا ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الزَّكَاةِ/حدیث: 1600]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن النسائی/الزکاة 29 (2498)، (تحفة الأشراف:7867)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الزکاة20 (1823) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (1807) أخرجه النسائي (2501 وسنده حسن) وانظر الحديثين الآتيين (1601، 1602)
حافظ نديم ظهير حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 1600
فقہ الحدیث شہد پر زکاۃ سے متعلق کافی اختلاف پایا جاتا ہے، لیکن اہل ایمان پر لازم ہے کہ بےجا اختلاف سے بچتے ہوئے ثابت شدہ امور پر عمل پیرا ہوں، چنانچہ: ”سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ «انه اخذ من العسل العشر» نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شہد کا عشر وصول کیا۔“[صحيح، سنن ابن ماجه 1824] ”سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما ہی ہے روایت ہے کہ سیدنا ہلال رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے شہد کی زکاۃ لے کر حاضر ہوئے اور آپ سے عرض کیا: آپ وادی سلبہ ان کے لیے خاص کر دیں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (حصول شہد کے لیے) وہ وادی ان کے لیے خاص کر دی۔ جب سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو سفیان بن وہب نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے اس بارے میں پوچھنے کے لیے خط لکھا تو عمر رضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھا: اگر وہ تجھے اپنے شہد کا عشر ادا کرتے رہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ادا کیا کرتے تھے تو وادی سلبہ ان کے لیے خاص رہنے دو، ورنہ برساتی مکھی کا شہد ہے جو چاہے اسے کھائے۔“[سنن نسائي 2501، سنن ابي داود 1600، وسنده صحيح] ”سیدنا ابن العاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے: قبیلہ فہم کا ایک گروہ . . . . . دس مشکوں میں سے ایک مشک (بطور عشر) دیتے تھے اور دونوں وادیاں انہی کے لیے خاص رہیں۔“[سنن ابي داود 1602، وسنده حسن] ان احادیث سے مستنبط ہونے والے مسئلے پر اگرچہ بعض علماء نے کلام کیا ہے، لیکن علماء کی ایک جماعت نے اس سے یہی سمجھا ہے کہ شہد میں عشر ہے۔ عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا بیان ہے، میں نے اپنے والد محترم (امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ) سے پوچھا: کیا شہد پر زکاۃ ہے؟ انہوں نے فرمایا: شہد میں عشر ہے۔ [مسائل الامام احمد: 620] مذکورہ دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ براہ راست چھتے سے اتارنے والے کے پاس اگر شہد اتنی مقدار میں ہو کہ وہ دس مشکیں بن جائے تو اس پر ایک مشک بطور عشر ادا کرنا ضروری ہے اور اگر اس سے کم ہو تو اس پر یہ حکم نہیں ہے۔ واضح رہے کہ جو لوگ بطور تجارت شہد کی خرید و فروخت کرتے ہیں، یعنی براہ راست خود چھتوں سے شہد نہیں اترواتے لیکن اس کا لین دین کرتے ہیں تو ان کی تجارت پر وہی زکوٰۃ عائد کی جائے گی جو تجارتی مال پر ہے۔ «والله اعلم»
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1600
1600. اردو حاشیہ: امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ۔ترمذی اور ابو بکر بن المنذر کے بیانات کے مطابق شہد میں زکواۃ واجب ہونے کی کوئی صحیح صریح حدیث نہیں ہے۔جبکہ زیر بحث مذکورہ بالا حدیث صحیح السند ہے۔تفصیل کےلئے دیکھئے۔(اروا الغلیل۔810/3)علامہ خطابی وغیرہ کا یہ قول ہے۔ کہ حضرت ہلال متعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی خوشی سے اس کی زکواۃ لے آئے۔تو رسول للہ ﷺنے قبول فرمالی۔ اور اس کی درخواست پروادی سلبہ اس کے نام لکھ دی۔اس کے بعد حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےیہی سمجھا کہ اولاً تو اس میں زکواۃ ہے ہی نہیں۔ تاہم چونکہ اس نے یہ وادی اپنے نام کرالی تھی۔تو اس کے بدلے اسے زکواۃ بھی دینی چاہیے اگر یہ زکواۃ نہ دے تو یہ وادی اس کے لئے مخصوص نہ رہے گی۔ بلکہ عام مسلمانوں کےلئے ہوگی۔جوچاہے اس سے استفادہ کرے۔الغرض چونکہ یہ مال ہے۔ اس لئے اس سے زکواۃ ادا کرنا ہی راحج اور احتیاط کا تقاضا ہے۔جیسا کہ ائمہ کرام ابو حنیفہرحمۃ اللہ علیہ احمد رحمۃ اللہ علیہ اور اسحاق رحمۃ اللہ علیہ وغیرہم کا فتویٰ ہے۔اور صحابہ کرام میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی مروی ہے۔عمر بن عبد العزیز اورامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ایک قول یہی ہے کہ شہد میں زکواۃ واجب ہے۔واللہ اعلم بالصواب
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1600
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2501
´شہد کی مکھی کی زکاۃ کا بیان۔` عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہلال رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے شہد کا دسواں حصہ لے کر آئے، اور آپ سے درخواست کی کہ آپ اس وادی کو جسے سلبہ کہا جاتا ہے ان کے لیے خاص کر دیں (اس پر کسی اور کا دعویٰ نہ رہے) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مذکورہ وادی ان کے لیے مخصوص فرما دی۔ پھر جب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو سفیان بن وھب نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو لکھا، وہ ان سے پوچھ رہے تھے (کہ یہ وادی ہلال۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2501]
اردو حاشہ: (1) شہد میں زکاۃ اختلافی مسئلہ ہے۔ امام ابوحنیفہ، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ شہد میں عشر کے قائل ہیں کیونکہ اس بارے میں کچھ احادیث منقول ہیں، اگرچہ بعض میں کلام ہے مگر مجموعی طور پر قوی ہو جاتی ہیں، لہٰذا وہ قابل حجت ہیں۔ شیخ البانی رحمہ اللہ وغیرہ نے شہد میں عشر کی روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔ مزید تفصیل اور طرق وشواہد کے لیے ملاحظہ فرمائیے: (إرواء الغلیل، رقم الحدیث: 810) امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تو ہر قلیل وکثیر شہد میں عشر کے قائل ہیں۔ لیکن یہ موقف درست نہیں کیونکہ انھی احادیث میں اس کا نصاب بھی دس مشکیزے بتایا گیا ہے۔ اور یہی راجح ہے۔ امام مالک، امام شافعی اور امام بخاری رحمہم اللہ شہد میں عشر کے قائل نہیں کیونکہ ان کے نزدیک مذکورہ روایات ضعیف ہیں، نیز اس باب میں مذکورہ حدیث میں ایک علاقہ حضرت ہلال رضی اللہ عنہ کے لیے مخصوص کرنے کے عوض شہد کا ایک حصہ وصول کرنے کا ذکر ہے۔ جس سے لگتا ہے کہ اگر علاقہ مخصوص نہ کیا جاتا تو عشر کا مطالبہ نہ ہوتا جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فرمان سے معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اس کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ چونکہ علاقہ مخصوص کرنے کی وجہ سے ان کے پاس شہد کی کثیر مقدار جمع ہو جاتی تھی، لہٰذا ان پر زکاۃ واجب تھی جبکہ معمولی مقدار میں شہد حاصل کرنے والے پر زکاۃ (عشر) واجب نہیں، جس طرح دوسری عشری چیزوں میں ہے۔ بہرحال تجارتی بنیادوں پر شہد کا وسیع کاروبار کرنے والوں پر زکاۃ لاگو ہوگی۔ (2)”بارشی مکھی۔“ کیونکہ بارش کا اس کی افزائش سے گہرا تعلق ہے، اسی لیے بارشی موسم میں مکھی زیادہ ہوتی ہے، یا جن چیزوں پر اس مکھی کا گزارہ ہوتا ہے، وہ بارش ہی سے اگتی اور بڑھتی ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2501