سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے امابعد کہا پھر کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو حکم دیتے تھے کہ ہم ان چیزوں میں سے زکاۃ نکالیں جنہیں ہم بیچنے کے لیے رکھتے تھے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الزَّكَاةِ/حدیث: 1562]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 4618) (ضعیف)» (اس کے راوی خبیب مجہول ہیں، لیکن مال تجارت پر زکاة اجماعی مسئلہ ہے)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تجارت کا مال اگر نصاب کو پہنچ جائے تو اس میں بھی زکاۃ ہے، اس مسئلہ پر امت کا اجماع ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف خبيب : مجهول وجعفر : ضعيف انظر الحديث المتقدم (975) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 62
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1562
1562. اردو حاشیہ: امام ابو داؤد اور علامہ منذری اس حدیث پر ساکت (خاموش) ہیں۔ ابن عبدالبر نے اس کی سند کو حسن کہا ہے۔علامہ ابن حجر نے اس کی سند کے بارے میں کہا ہے کہ اس میں جہالت ہے (راوی مجہول ہے۔) شیخ شوکانی نے بھی ”السیل الجرار“ میں ایسے ہی لکھا ہے۔ [السیل الجرار:26/2، 27) ارواء الغلیل فی تخریج احادیث منار السبیل للالبانی میں ہے کہ مال تجارت میں زکوۃ کی احادیث ضعیف ہیں فتاوی ابن تیمیہ میں ہے کہ اموال تجارت میں زکوۃ ہے۔ (25/15) ابن المنذر نے فرمایا ہے کہ اہل علم کا اس مسئلے پر اجماع ہے کہ سال گزرنے پر مال تجارت میں زکوۃ ہے۔ حضرت عمر، ابن عمر اور ابن عباس سے یہی مروی ہے۔ فقہائے سبعہ، حسن، جابر بن زید، میمون بن مہران، طاؤوس، نخعی، ثوری، اوزاعی، ابو حنیفہ، احمد، اسحاق، ابو عبید اور امام ابن تیمیہ کا یہی فتویٰ ہے۔ الغرض احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ مال تجارت کسی بھی قسم کا ہو اس کی قیمت کا اعتبار کرکے اس کی زکوۃ ادا کر دی جائے۔ اموال تجارت میں زکوۃ کی ادائیگی کا طریقہ یہ کہ سال بہ سال جتنا تجارت مال دوکان یا گودام وغیرہ میں ہو، اس کی قیمت کا اندازہ کر لیا جائے۔ علاوہ ازیں جتنی رقم گردش میں ہو اور جو رقم موجود ہو، اس کو بھی شمار کر لیا جائے۔ نقد رقم، کاروبار میں لگا ہوا سرمایہ اور سامان تجارت کی تخمینی قیمت سب ملاکر جتنی رقم ہو، اس پر ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوۃ ادا کی جائے۔ تاہم کوئی تجارتی مال اس طرح کا ہے کہ وہ خریدا، لیکن وہ کئی سال تک فروخت نہیں ہوا، تو اس مال کی زکوۃ اس کے فروخت ہونے پر صرف ایک سال کی ادا کی جائے گی۔ ورنہ عام مال جو دوکان میں فروخت نہیں ہوتا رہتا ہے اور نیا سٹاک آتا رہتا ہے، وہاں چونکہ فرداً فرداً ایک ایک چیز کا حساب مشکل ہے، اس لیے سال کے بعد سارے مال کا بہ حیثیت مجموعی قیمت کا اندازہ کر کے زکوۃ نکالی جائے۔ اگر کوئی رقم کسی کاروبا میں منجمد ہو گئی ہو، جیسا کہ بعض دفعہ ایسا ہوجاتا ہے اور وہ رقم دو تین سال یا اس سے زیادہ دیر تک پھنس رہتی ہے یا کسی پارٹی کے ساتھ سابقہ پیش آ جاتا ہے کہ کئی سال رقم وصول نہیں ہوتی تو ایسی ڈوبی ہوئی رقم کی زکوۃ سال بہ سال دینی ضروری نہیں۔ جب رقم وصول ہو جائے، اس وقت سال کی زکوۃ ادا کر دی جائے، وہ جب بھی وصول ہو۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1562
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 501
´(زکوٰۃ کے متعلق احادیث)` سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں سامان تجارت سے زکوٰۃ نکالنے کا حکم دیا کرتے تھے۔ اسے ابوداؤد نے کمزور سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ [بلوغ المرام/حدیث: 501]
لغوی تشریح: «نُعِدُّهُ» ہم اسے تیار کرتے تھے اور فروخت کے لیے حاضر کرتے تھے۔ «نُعِدُّهُ» میں ”نون“ پر ضمہ اور ”عین“ کے نیچے کسرہ ہے۔ إعداد سے ماخوذ بابِ افعال ہے۔ یہ حدیث اموال تجارت پر زکاۃ کے وجوب کی دلیل ہے۔ «وَإسْنَادُهُ لَيِّنٌ» اس کی سند کمزور ہے، مگر امام ابوداؤد رحمہ الله نے اس کے بارے میں خاموشی اختیار کی ہے، نیز امام منذری رحمہ الله نے بھی سکوت کیا ہے۔ ابن عبدالبر رحمہ الله نے کہا ہے کہ اس کی سند حسن درجے کی ہے۔ [عون المعبود: 3/2، هندي]
فائدہ: مذکورہ روایت کو فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ جامع ترمذی کی حسن درجے کی روایت: «أدُّوا زَكَاةَ أمْوَالِكُمْ»(حدیث: 616) اس کی مؤید ہے، نیز اللہ تعالیٰ کے فرمان «اَنْفِقُوْ مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ»[البقرة 276: 2] سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے فاضل محقق کے نزدیک بھی مال تجارت میں زکاۃ واجب ہے۔ امام ابوداؤد رحمہ الله اور منذری رحمہ الله اس حدیث کے حکم کی بابت خاموش ہیں۔ امام ابن عبدالبر رحمہ الله نے اس کی سند کو حسن کہا ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ الله بیان کرتے ہیں کہ ائمہ اربعہ اور ساری امت کا (سوائے چند شاذ لوگوں کے) اس بات پر اتفاق ہے کہ سامان تجارت میں زکاۃ واجب ہے۔ [القواعد النورانيه الفقيهية، ص 89، 90، طبع مصر] امام ابن منذر رحمہ الله فرماتے ہیں کہ اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ سال گزرنے پر مال تجارت میں زکاۃ ہے۔ حضرت عمر، ابن عمر اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضوان اللہ علیھم اجمعین سے بھی یہی مروی ہے۔ فقہاۓ سبعہ، حسن، جابر بن زید، میمون بن مہران، طاؤوس، النخعی، ثوری، اوزاعی، ابوحنیفہ، اسحاق اور ابوعبیدرحمھم اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کا یہی فتوی ہے۔ الغرض احتیاط کا بھی یہی تقاضا ہے کہ مال تجارت کسی بھی قسم کا ہو اس کی قیمت کا اعتبار کر کے اس کی زکاۃ ادا کر دی جائے۔ «والله اعلم» اموال تجارت میں زکاۃ کی ادائیگی کا طریقہ یہ ہے کہ سال بہ سال جتنا تجارتی مال دکان یا گودام وغیرہ میں ہو، اس کی قیمت کا اندازہ کر لیا جائے۔ علاوہ ازیں جتنی رقم گردش میں ہو اور جو رقم موجود ہو، اس کو بھی شمار کر لیا جائے۔ نقد رقم، کاروبار میں لگا ہوا سرمایہ اور سامان تجارت کی تخمینی قیمت سب ملا کر جتنی رقم ہو، اس میں سے ڈھائی فیصد کے حساب سے زکاۃ ادا کی جائے تاہم اگر کوئی تجارتی مال اس طرح کا ہے کہ وہ خریدا لیکن وہ کئی سال تک فروخت نہیں ہو ا تو اس مال کی زکاۃ اس کے فروخت ہونے پر صرف ایک سال ادا کی جائے گی۔ اسی طرح اگر کوئی رقم کسی کاروبار میں منجمد ہو گئی ہو جیسا کہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے اور وہ رقم دو تین سال یا اس سے زیادہ عرصے تک پھنسی رہتی ہے یا کسی ایسی پارٹی کے ساتھ سابقہ پڑ جاتا ہے کہ کئی سال تک رقم وصول نہیں ہوتی تو ایسی ڈوبی ہوئی رقم کی زکاۃ سال بہ سال دینی ضروری نہیں بلکہ جب رقم وصول ہو جائے، اس وقت سال کی زکاۃ ادا کر دی جائے۔ «هذا ماعندنا واللٰه اعلم بالصواب»
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 501