اس سند سے بھی زہری سے یہی روایت مروی ہے اس میں ہے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس (اسلام) کا حق یہ ہے کہ زکاۃ ادا کریں اور اس میں «عقالا» کا لفظ آیا ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الزَّكَاةِ/حدیث: 1557]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 10666) (صحیح)» (اوپر والی حدیث میں تفصیل سے پتا چلتا ہے کہ «عناق» کا لفظ محفوظ، اور «عقال» کا لفظ شاذ ہے)
قال الشيخ الألباني: صحيح ولكنه شاذ بهذا اللفظ
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (7284، 7285) صحيح مسلم (20)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1557
1557. اردو حاشیہ: ➊ رسول اللہ ﷺ کی وفات حقیقی وفات تھی۔”پردہ پوشی“ والی بات صحابہ کرام ؓ میں کہیں بھی سمجھی سمجھائی نہیں گئی‘ جیسے کہ آج کل لوگ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ➋ قبائل عرب تین طرح سے کافر ہوئےتھے۔ ایک وہ لوگ تھے جو اسلام سے مرتد ہو کر مسلمہ کذاب کے پیرو ہو گئےتھے۔ دوسرے وہ تھے جنہوں نے نماز‘ زکوۃ اور دیگر احکام شریعت سے سرتابی کی تھی۔ اور تیسرے وہ تھے جنہوں نے صرف زکوۃ کی ادائیگی سے انکار کیا تھا۔ ان کا یہ انکار بھی کفر ہی کہلایا تھا۔ (تفصیل آگے آرہی ہے۔) ➌ اسلامی حکومت اور معاشرے میں نماز اور زکوۃ لازم وملزوم ہیں اور زکوۃ کے انکارپر جنگ ہو سکتی ہے۔ ➍ دین میں فہم و بصیرت کے اعتبار سے صحابہ کرام ؓ میں بھی فرق تھا اور حضرت ابوبکر سب سے فائق تھے۔ ➎ جہاد کی حقیقت‘ اشاعت توحید وسنت اور غلبہ دین کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ ➏ حکومت اسلامیہ میں رعیت کی جان ومال اور آبرو ہر طرح سے محفوظ ہوتی ہے اور رہنی چاہیے۔ ➐ حکومت اسلامیہ بجا طور پر یہ حق رکھتی ہے کہ اپنی رعایا سے حقوق و فرائض اسلام کی پابندی کا مطالبہ کرے اور اس مقصد کے لیے قتال بھی جائز ہے۔ ➑ حدیث میں وارد لفظ: «عناقا»”بکری کے بچے“ سے محدثین یہ استدلال کرتے ہیں کہ جانوروں کے بچے ماؤں کے تابع ہیں جیسے کہ بعض صورتوں میں مال مستفاد کا حکم ہے۔ ➒ اختلاف روایت کو بالاسانید بیان کرنا دلیل ہے کہ محدثین کرام نقل احادیث میں غایت درجہ محتاط اور امین تھے۔ رافضیوں کے کچھ شبہات اور ان کا جواب: رافضیوں کا اتہام ہے کہ حضرت ابوبکر پہلے وہ شخص ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو قیدی بنایا حالانکہ یہ لوگ‘ جن سے قتال کیا گیا‘ اصحاب تاویل تھے (ان کے زعم میں زکوۃ کا ایک خاص مفہوم تھا) ان کا خیال تھا کہ قرآن کریم کا یہ ارشاد: ﴿خُذ مِن أَموٰلِهِم صَدَقَةً تُطَهِّرُهُم وَتُزَكّيهِم بِها وَصَلِّ عَلَيهِم إِنَّ صَلوٰتَكَ سَكَنٌ لَهُم وَاللَّهُ سَميعٌ عَليمٌ﴾[سورہ توبہ:103] ”آپ ﷺان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجئے، جس کے ذریعہ سے آپ ان کو پاک صاف کردیں اور ان کے لیے دعا کیجئے، بلاشبہ آپ کی دعا ان کے لیے موجب اطمینان ہے اور اللہ تعالیٰ خوب سنتا ہے خوب جانتا ہے۔“ یہ خطاب خاص ہے۔ اس کا تعلق صرف رسول اللہ ﷺ سے ہے‘ کوئی اور اس کا مخاطب یا اس میں شریک نہیں ہے۔ اس میں ایسی شرطیں ہیں جو کسی اور میں نہیں ہیں‘ یعنی یہ تطہیر و تزکیہ اور صاحب صدقہ کے لیے صلاۃ ‘ یعنی دعا۔ یہ امور صرف نبی کریم ﷺ کے ساتھ خاس ہیں۔ اور جب ذہنوں میں اس قسم کے شبہات موجود ہوں تو ایسے لوگوں کو معذور جاننا چاہیے ان پر تلوار اٹھانا کسی طور روا نہیں۔ ان لوگوں کے خیال میں ان سے قتال ظلم وزیادتی تھا۔ (جواب) حقیقت یہ ہے کہ ان (رافضیوں) کا دین میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ ان کا کل سرمایہ بہتان‘ تکذیب اور صحابہ کرام کی عیب چینی ہے۔ اور یہ کھلی حقیقت ہے کہ مرتدین کئی طرح کے تھے۔ ایک وہ تھے جنہوں نے سرے سے اسلام ہی کا انکار کیا تھا اور نبوت مسیلمہ کذاب یا کسی اور مدعی نبوت کی دعوت دی تھی۔ دوسرے وہ تھے جنہوں نے نماز اور زکوۃ چھوڑتے ہوئے شریعت کا انکار کیا۔ انہی لوگوں کو صحابہ نے کافر کہا اور اسی بنا پر حضرت ابوبکر نے ان کی اولادوں کو قیدی بنایا اور اس میں صحابہ کرام کی کثیر تعداد ان کی مؤیدومعاون تھی۔ اسی موقع پر ایک لونڈی حضرت علی المرتضیٰ کو ملی تھی جو کہ بنی حنیفہ کے قبیلہ سے تھی‘ اس سے ان کی اولاد بھی ہوئی۔ محمد بن حنیفہ حضرت علی کے فرزند گرامی قدر اسی لونڈی سےہیں......... (البتہ اواخر دور صحابہ میں ان کا یہ اجماع ہوگیا تھا کہ مرتدین کو قیدی نہ بنایا جائے۔) تیسرے وہ لوگ تھے جنہوں نے صرف زکوۃ کا انکار کیا تھا‘ علاوہ ازیں باقی امور دین میں وہ اس پر پوری طرح کار بند رہے تھے۔ یہ لوگ ب ”باغی“ تھے۔ ان میں سے کسی کو بھی انفرادی طور پر ”کافر“ نہیں کہا گیا‘ اگرچہ لفظ ارتداد اور مرتد ان پر بولا گیا ہے کیونکہ انکار زکوۃ و حقوق دین میں یہ دوسروں کے مشابہ ہو گئے تھے۔اور لغوی اعتبار سے جو شخص ایک عمل کرتا ہو پھر اس سے انکار کر دے تو و ہ اس سے ”مرتد“ ہی ہوتا ہے۔ چونکہ ان لوگوں نے اطاعت سےسرتابی کی اور حق اسلام کا انکار کیا اس وجہ سے مدح وثنا کا لفظ ان سے چھین گیا اور ایک برا لقب ان کے حصے میں آیا۔ رہے یہ شبہات کہ [خُذْ مِنْ أَموالِھم ........] کا خطاب رسول اللہ ﷺ سے خاص ہے تومعلوم ہونا چاہیے کہ کتاب اللہ کے خطاب تین طرح کے ہیں: ایک عام خطاب‘ مثلاً: ﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا قُمتُم إِلَى الصَّلوٰةِ فَاغسِلوا وُجوهَكُم.......﴾[المائدہ:6] ”اے ایمان والو! جب تم نماز کے لئے اٹھو تو اپنے منہ کو دھو لو........“ دوسرا وہ جو رسول اللہ ﷺ سے مخصوص ہوتا ہے‘ دوسروں کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ایسے خطابات میں اوروں کی شراکت کا شبہ صریح الفاظ سے ختم کر دیا جاتا ہے‘ مثلاً: ﴿وَمِنَ الَّيلِ فَتَهَجَّد بِهِ نافِلَةً لَكَ....﴾[بنی اسرائیل:79] ”رات کے کچھ حصے میں تہجد کی نماز میں قرآن کی تلاوت کریں یہ زیادتی آپ کے لئے ہے۔“ دوسری جگہ نکاح کے مسئلہ میں ہے: ﴿خالِصَةً لَكَ مِن دونِ المُؤمِنينَ﴾[الأحزاب:50] ”(اگر کوئی خاتون اپنے آپ کو نبی کو بخش دے تو نبی کا اس سے نکاح کرنا جائز ہے)....... یہ خاص طور پر صرف تیرے لئے ہی ہے اور مومنوں کے لئے نہیں۔“ خطاب کی تیسری نوع وہ ہے جس میں مخاطب تو رسول اللہ ﷺ کو کیا ہوتا ہے مگر مراد آپ اور آپ کی امت دونوں ہی ہوتے ہیں۔ آپ کا ذکر مبارک اس لیے ہوتا ہے کہ آپ داعی الی اللہ ہیں۔ احکام الہی کے مبین ہیں۔ اس میں امت کو ہدایت ہوتی ہے کہ جس طرح آپ ﷺ کر کے دکھائیں اسی طرح کریں‘ مثلاً: ﴿أَقِمِ الصَّلوٰةَ لِدُلوكِ الشَّمسِ إِلىٰ غَسَقِ الَّيلِ ﴾[بنی اسرائیل:78] ” نماز کو قائم کریں آفتاب کے ڈھلنے سے لے کر رات کی تاریکی تک“ اور ﴿فَإِذا قَرَأتَ القُرءانَ فَاستَعِذ بِاللَّهِ ﴾[النحل:98] ”جب آپ قرآن پڑھنے لگیں تو اللہ کی پناہ اختیار کیا کریں۔“ زیر بحث مسئلہ اور خطاب کہ [خُذْ مِن أَموالِھم ........] اسی آخری نوع سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ نبی ﷺ سے مخصوص نہیں بلکہ آپ کے ساتھ آپ کی امت کے خلفاء و امراء بھی اس میں شریک ہیں...... رہا مسئلہ تطہیر و تزکیہ اور صاحب زکوۃ کے لیے دعا کا.... تو یہ ایک عام عمل ہے۔ کوئی بھی مخلص مسلمان اللہ اور اس کےرسول کی اطاعت کرکے یہ مقام و مرتبہ حاصل کر سکتا ہے۔ اور تمام اجور و ثواب جن کا آپ کے زمانے میں وعدہ فرمایا گیا ہے وہ قیامت تک کے لیے جاری ہیں۔ ان میں کسی قسم کا انقطاع نہیں۔ (ماخوذ از نیل الاوطار:136/4)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1557