الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابي داود
كتاب تفريع أبواب الوتر
کتاب: وتر کے فروعی احکام و مسائل
32. باب فِي الاِسْتِعَاذَةِ
32. باب: (بری باتوں سے اللہ کی) پناہ مانگنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1544
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ:" اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْفَقْرِ، وَالْقِلَّةِ، وَالذِّلَّةِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ أَنْ أَظْلِمَ أَوْ أُظْلَمَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھتے تھے: «اللهم إني أعوذ بك من الفقر، والقلة، والذلة، وأعوذ بك من أن أظلم أو أظلم» اے اللہ! میں فقر، قلت مال اور ذلت سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور اس بات سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ میں کسی پر ظلم کروں یا کوئی مجھ پر ظلم کرے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1544]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏سنن النسائی/الاستعاذہ 13 (5462)، (تحفة الأشراف:13385)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الدعاء 3 (3838)، مسند احمد (2/305، 325، 354) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: بعض حدیثوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فقر اور مسکنت کو طلب کیا ہے اور بعض میں اس سے پناہ مانگی ہے، مرغوب و مطلوب اور پسندیدہ فقر وہ ہے جس میں مال کی کمی ہو لیکن دل غنی ہو، اور دنیا کی حرص و لالچ نہ ہو، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے فقر سے پناہ مانگی ہے جس میں آدمی واجبی ضروریات زندگی کے حاصل کرنے سے عاجز ہو، اور جس سے عبادت میں خلل پڑتا ہو، اور قلت سے مراد نیکیوں کی کمی ہے نہ کہ مال کی، یا مال کی اتنی کمی ہے جو قوت لایموت اور ناگزیر ضرورتوں کو بھی کافی نہ ہو۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
مشكوة المصابيح (2467)
أخرجه النسائي (5462 وسنده صحيح)

   سنن النسائى الصغرىاللهم إني أعوذ بك من الفقر وأعوذ بك من القلة والذلة وأعوذ بك أن أظلم أو أظلم
   سنن النسائى الصغرىتعوذوا بالله من الفقر والقلة والذلة وأن تظلم أو تظلم
   سنن النسائى الصغرىاللهم إني أعوذ بك من القلة والفقر والذلة وأعوذ بك أن أظلم أو أظلم
   سنن النسائى الصغرىتعوذوا بالله من الفقر ومن القلة ومن الذلة وأن أظلم أو أظلم
   سنن النسائى الصغرىتعوذوا بالله من الفقر والقلة والذلة وأن تظلم أو تظلم
   سنن أبي داوداللهم إني أعوذ بك من الفقر والقلة والذلة وأعوذ بك من أن أظلم أو أظلم
   سنن ابن ماجهتعوذوا بالله من الفقر والقلة والذلة وأن تظلم أو تظلم

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 1544 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1544  
1544. اردو حاشیہ: فقر دو طرح سے ہوتا ہے، مال کا یا دل کا۔ انسان کے پاس مال نہ ہو مگر دل غنی اور سیر چشم ہو تو یہ ممدوح ہے مگر اس کے برعکس انسان حرص کا مریض ہو یہ تو بہت ہی قبیح خصلت ہے۔ نیز فقیری اور غریبی کی یہ کیفیت کہ انسان ضروریات زندگی کے حصول سے محروم اور عاجز ہو کہ لازمی واجبات بھی ادا نہ کرسکے۔ اس سے رسول اللہ ﷺ نے پناہ مانگی ہے۔ قلت سے مراد اعمال خیر اور ان کے اسباب کی قلت ہے اور ذلت یہ کہ انسان عصیان کا مرتکب ہو کر اللہ کے سامنے رسوا ہو جائے یا لوگوں کی نظروں میں اس کا وقار نہ رہے کہ اس کی دعوت ہی نہ سنی جائے۔ اس سے اللہ کی پناہ مانگنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ اسی طرح انسان کا اپنے معاشرے میں ظالم بن جانا یا مظلوم بن جانا کوئی بھی صورت ممدوح نہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1544   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5462  
´ذلت سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: «اللہم إني أعوذ بك من الفقر وأعوذ بك من القلة والذلة وأعوذ بك أن أظلم أو أظلم» اے اللہ! میں فقر و غربت سے تیری پناہ مانگتا ہوں، کمی اور ذلت سے پناہ مانگتا ہوں، ظلم کرنے اور ظلم کیے جانے سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔‏‏‏‏ (ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں) اوزاعی نے حماد کی مخالفت کی ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الاستعاذة/حدیث: 5462]
اردو حاشہ:
اوزاعی نے اس حدیث کے بیان کرنے میں حماد بن سلمہ کی مخالفت کی ہے اور وہ اس طرح کہ حماد بن سلمہ نے اسحاق بن عبد اللہ سے بیان کرتے ہوئے کہا ہے:عن سعید بن یسار عن أبي هریرة جبکہ اوزاعی نے اسحاق بن عبد اللہ سے بیان کیا ہے تو کہا ہے: حدثني جعفر بن عیاض‘ قال حدثني أبي هریرة‘یعنی اوزاعی نے سعید بن یسار کی بجائے جعفر بن عیاض کہا ہے۔ واللہ أعلم
(1) سنن ابوداؤد مترجم‘ مطبوعہ دارالسلام‘ حدیث:1544 کے فائدے میں ابو عمار عمر فاروق سعیدی حفظہ اللہ رقم طراز ہیں کہ فقر دو طرح سے ہوتا ہے: مال کا یا دل کا۔ انسان کے پاس مال نہ ہو مگر دل کا غنی اور سیر چشم ہو تو یہ ممدوح ہے مگر اس کے بر عکس انسان حرص کا مریض ہو تو یہ بہت ہی قبیح خصلت ہے‘ نیز فقیری اور غریبی کی کیفیت کہ انسان ضروریات زندگی کے حصول سے محروم اور عاجز ہو کر لازمی واجبات کی ادا نہ کر سکے‘ اس سے رسول اللہ ﷺ نے پناہ مانگی ہے۔ قلت سے مراد اعمال خیر اور ان کے اسباب کی قلت ہے اور ذلت یہ کہ انسان عصیان (اللہ تعالی ٰ نافرمانی) کا مرتکب ہو کر اللہ کے سامنے رسوا ہو جائے یا لوگوں کی نظروں میں اس کا وقار نہ رہے کہ اس کی دعوت ہی نہ سنی جائے۔اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ اسی طرح انسان کا اپنے معاشرے میں ظالم بن جانا یا مظلوم بن جانا‘ کوئی بھی صورت ممدوح نہیں۔
(2) فقر سے مراد وہ فقر بھی ہو سکتا ہے جس سے کفر اور گمراہی کا خطرہ ہو کیونکہ عوام الناس کے لیے فقر گمراہی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ ہاں اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں کے لیے مالی فقر ایک نعمت ہے۔ آپ کی دعائیں دراصل امت کے لیے تعلیم ہیں۔ یا فقر سے مراد جسے انسان برداشت نہ کر سکے اور دست سوال دراز کرنے پر مجبور ہو جاۓ۔ فقر سے فقرقلب بھی مراد ہو سکتا ہے جیسا کہ گزشتہ سطور میں ذکر ہوا۔
(3) قلت سے مراد افراد بھی ہو سکتی ہے اور قلت مال بھی جسے اوپر فقر کہا گیا ہے ورنہ کثرت مال تو بسا اوقات گمراہی کا سبب بن جاتی ہے۔ ذلت سے مراد لوگوں کا غلبہ ہے کہ آدمی اپنا حق بھی حاصل نہ کر سکے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے ‘حدیث:5451۔
(4) اس حدیث میں ہر بعد والا لفظ پہلے کا نتیجہ ہے۔ فقر سے قلت پیدا ہوتی ہے‘ قلت ذلت کو جنم دیتی ہے اور ذلت انسان کو مظلوم بنا دیتی ہے۔ یا وہ تنگ آمد بجنگ آمد کے اصول پر ظالم ڈاکو بن جاتا ہے۔ نعوذ بالله من ذلك
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5462   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5462  
´ذلت سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: «اللہم إني أعوذ بك من الفقر وأعوذ بك من القلة والذلة وأعوذ بك أن أظلم أو أظلم» اے اللہ! میں فقر و غربت سے تیری پناہ مانگتا ہوں، کمی اور ذلت سے پناہ مانگتا ہوں، ظلم کرنے اور ظلم کیے جانے سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔‏‏‏‏ (ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں) اوزاعی نے حماد کی مخالفت کی ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الاستعاذة/حدیث: 5462]
اردو حاشہ:
اوزاعی نے اس حدیث کے بیان کرنے میں حماد بن سلمہ کی مخالفت کی ہے اور وہ اس طرح کہ حماد بن سلمہ نے اسحاق بن عبد اللہ سے بیان کرتے ہوئے کہا ہے:عن سعید بن یسار عن أبي هریرة جبکہ اوزاعی نے اسحاق بن عبد اللہ سے بیان کیا ہے تو کہا ہے: حدثني جعفر بن عیاض‘ قال حدثني أبي هریرة‘یعنی اوزاعی نے سعید بن یسار کی بجائے جعفر بن عیاض کہا ہے۔ واللہ أعلم
(1) سنن ابوداؤد مترجم‘ مطبوعہ دارالسلام‘ حدیث:1544 کے فائدے میں ابو عمار عمر فاروق سعیدی حفظہ اللہ رقم طراز ہیں کہ فقر دو طرح سے ہوتا ہے: مال کا یا دل کا۔ انسان کے پاس مال نہ ہو مگر دل کا غنی اور سیر چشم ہو تو یہ ممدوح ہے مگر اس کے بر عکس انسان حرص کا مریض ہو تو یہ بہت ہی قبیح خصلت ہے‘ نیز فقیری اور غریبی کی کیفیت کہ انسان ضروریات زندگی کے حصول سے محروم اور عاجز ہو کر لازمی واجبات کی ادا نہ کر سکے‘ اس سے رسول اللہ ﷺ نے پناہ مانگی ہے۔ قلت سے مراد اعمال خیر اور ان کے اسباب کی قلت ہے اور ذلت یہ کہ انسان عصیان (اللہ تعالی ٰ نافرمانی) کا مرتکب ہو کر اللہ کے سامنے رسوا ہو جائے یا لوگوں کی نظروں میں اس کا وقار نہ رہے کہ اس کی دعوت ہی نہ سنی جائے۔اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ اسی طرح انسان کا اپنے معاشرے میں ظالم بن جانا یا مظلوم بن جانا‘ کوئی بھی صورت ممدوح نہیں۔
(2) فقر سے مراد وہ فقر بھی ہو سکتا ہے جس سے کفر اور گمراہی کا خطرہ ہو کیونکہ عوام الناس کے لیے فقر گمراہی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ ہاں اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں کے لیے مالی فقر ایک نعمت ہے۔ آپ کی دعائیں دراصل امت کے لیے تعلیم ہیں۔ یا فقر سے مراد جسے انسان برداشت نہ کر سکے اور دست سوال دراز کرنے پر مجبور ہو جاۓ۔ فقر سے فقرقلب بھی مراد ہو سکتا ہے جیسا کہ گزشتہ سطور میں ذکر ہوا۔
(3) قلت سے مراد افراد بھی ہو سکتی ہے اور قلت مال بھی جسے اوپر فقر کہا گیا ہے ورنہ کثرت مال تو بسا اوقات گمراہی کا سبب بن جاتی ہے۔ ذلت سے مراد لوگوں کا غلبہ ہے کہ آدمی اپنا حق بھی حاصل نہ کر سکے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے ‘حدیث:5451۔
(4) اس حدیث میں ہر بعد والا لفظ پہلے کا نتیجہ ہے۔ فقر سے قلت پیدا ہوتی ہے‘ قلت ذلت کو جنم دیتی ہے اور ذلت انسان کو مظلوم بنا دیتی ہے۔ یا وہ تنگ آمد بجنگ آمد کے اصول پر ظالم ڈاکو بن جاتا ہے۔ نعوذ بالله من ذلك
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5462   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5466  
´فقر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگو فقر سے، قلت اور ذلت سے اور ظلم کرنے اور کیے جانے سے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الاستعاذة/حدیث: 5466]
اردو حاشہ:
تفصیل کے لیے دیکھیے، فائدہ حدیث: 5463۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5466   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5466  
´فقر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگو فقر سے، قلت اور ذلت سے اور ظلم کرنے اور کیے جانے سے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الاستعاذة/حدیث: 5466]
اردو حاشہ:
تفصیل کے لیے دیکھیے، فائدہ حدیث: 5463۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5466   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5466  
´فقر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگو فقر سے، قلت اور ذلت سے اور ظلم کرنے اور کیے جانے سے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الاستعاذة/حدیث: 5466]
اردو حاشہ:
تفصیل کے لیے دیکھیے، فائدہ حدیث: 5463۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5466   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3842  
´جن چیزوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ چاہی ہے ان کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اللہ سے فقیری، مال کی کمی، ذلت، ظلم کرنے اور ظلم کئے جانے سے پناہ مانگو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الدعاء/حدیث: 3842]
اردو حاشہ:
فوائد  ومسائل:
ان چیزوں سے پناہ مانگنے کےلیے اس طرح دعا کریں:
«اللّهُمَّ إنِّي أَعُوْذُ بِكَ مِنَ الْفَقْرِ، وَالْقِلَّةِ، وَالذِّلَّةِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ أَنْ أَظْلِمَ أو أُظْلَمَ»
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3842