ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو استغفار کرتا رہا اس نے گناہ پر اصرار نہیں کیا گرچہ وہ دن بھر میں ستر بار اس گناہ کو دہرائے“۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1514]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الدعوات 107 (3559)، (تحفة الأشراف:6628) (ضعیف)» (اس کے ایک راوی مولی لا ٔبی بکر مبہم مجہول آدمی ہیں)
وضاحت: ۱؎: صغیرہ گناہوں پر اصرار سے وہ کبیرہ ہو جاتے ہیں، اور کبیرہ پر اصرار کرنے سے آدمی کفر تک پہنچ جاتا ہے، لیکن اگر ہر گناہ کے بعد صدق دل سے توبہ و استغفار کر لے اور اسے دوبارہ نہ کرنے کی پختہ نیت کرے، مگر بدقسمتی سے پھر اس میں مبتلا ہوجائے تو یہ اصرار نہ ہو گا، اس طرح اس حدیث سے استغفار کی فضیلت ثابت ہوئی۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: حسن مشكوة المصابيح (2340) وللحديث شاھد حسن لذاته عند الطبراني في الدعاء (1797) فيه أبو شيبة سعيد بن عبد الرحمن الأسدي حسن الحديث
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1514
1514. اردو حاشیہ: ➊ استغفار کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنا۔ کہ وہ ان کو اپنی رحمت سے ڈھانپ دے۔ اور بندے کو رُسوا نہ کرے۔ ➋ اپنے گناہوں پراڑنا اور اصرار کرنا۔ ظالموں اور گناہ گاروں کی عادت ہے۔ [يَسْمَعُ آيَاتِ اللَّـهِ تُتْلَىٰ عَلَيْهِ ثُمَّ يُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَأَن لَّمْ يَسْمَعْهَا ۖ فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ] [الجاثیة۔8] اللہ کی آیات کو سنتا ہے۔ جو کہ اس پر پڑھی جاتی ہیں پھر اڑا رہتا ہے۔ (اپنے گناہوں پر) تکبرکرتے ہوئے۔ گویا اس نے ان کو سنا ہی نہیں۔ تو ایسے کو درد ناک عذاب کی خوش خبری سنا دیجیئے۔ جب کہ متقی انسان کی صفت اس کے برخلاف ہوتی ہے۔ [وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَىٰ مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ] [آل عمران۔135] متقی اپنے کیے پراصرار نہیں کرتے۔ اور وہ جانتے ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1514
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3559
´باب:۔۔۔` ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص گناہ کر کے توبہ کر لے اور اپنے گناہ پر نادم ہو تو وہ چاہے دن بھر میں ستر بار بھی گناہ کر ڈالے وہ گناہ پر مُصر اور بضد نہیں مانا جائے گا۔“[سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3559]
اردو حاشہ: نوٹ: (اس کی سند میں ایک مبہم راوی ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3559