ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب سلام پھیرتے تو فرماتے: «اللهم أنت السلام ومنك السلام تباركت يا ذا الجلال والإكرام»۱؎”اے اللہ تو ہی سلام ہے، تیری ہی طرف سے سلام ہے، تو بڑی برکت والا ہے، اے جلال اور بزرگی والے“۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں: سفیان کا سماع عمرو بن مرہ سے ہے، لوگوں نے کہا ہے: انہوں نے عمرو بن مرہ سے اٹھارہ حدیثیں سنی ہیں ۲؎۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1512]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/المساجد 26 (592)، سنن الترمذی/الصلاة 109 (298)، سنن النسائی/السہو 82 (1339)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 32 (924)، (تحفة الأشراف:16187)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/62، 184، 235)، سنن الدارمی/الصلاة 88 (1387) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: صحیح روایات سے یہ دعا صرف اتنی ہی ثابت ہے جن روایتوں میں «وإليك يرجع السلام وأدخلنا دار السلام، تبارك ربنا وتعاليت يا ذا الجلال والإكرام» کی زیادتی آئی ہے وہ کمزور اور ضعیف ہیں۔ ۲؎: مولف کا یہ کلام حدیث نمبر (۱۵۱۱) سے متعلق ہے۔
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1512
1512. اردو حاشیہ: امام ابو دائود رحمۃ اللہ علیہ کا یہ مقولہ سابقہ سند سے متعلق ہے۔ اور مذکورہ دعا کے الفاظ صحیح احادیث میں اسی قدر ہیں جو بیان ہوئے اور کچھ لوگ جو پڑھتے ہیں۔ (إِليكَ يرجعُ السَّلامُ و أَدْخلنَا دارَالسَّلامِ تباركتَ ربنا وتعاليتَ يا ذا الجلالِ والإكرامِ] صحیح سند سے ثابت نہیں ہے۔ پس آپﷺ کی دعا میں ان کا اضافہ ایسے ہی ہے جیس خالص دودھ میں پانی ملا دیا جائے۔ جو بہرحال غلط ہے۔ خواہ آب زم زم ہی کیوں نہ ملایا جائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1512
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1339
´استغفار کے بعد کے ذکر الٰہی کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سلام پھیرتے تو کہتے: «اللهم أنت السلام ومنك السلام تباركت يا ذا الجلال والإكرام»”اے اللہ! تو سلام ہے، اور تجھی سے تمام کی سلامتی ہے، اے عزت و بزرگی والے تیری ذات بڑی بابرکت ہے۔“[سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1339]
1339۔ اردو حاشیہ: ”تو سلام ہے“ یعنی تو ہر قسم کے عیب اور نقص سے پاک ہے، یا تو لوگوں کو سلامتی دینے والا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1339
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث924
´سلام پھیر نے کے بعد کیا پڑھے؟` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سلام پھیرتے تو (اپنے مصلے پر قبلہ رو) اس قدر بیٹھتے جتنے میں یہ دعا پڑھتے: «اللهم أنت السلام ومنك السلام تباركت يا ذا الجلال والإكرام»”اے اللہ! تو ہی سلام ہے اور تیری جانب سے سلامتی ہے، اے بزرگی و برتری والے! تو بابرکت ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 924]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) فرض نماز کے بعد یہ دعا پڑھنی چاہیے (2) مسنون دعا صرف اسی قدر ہے جو اس حدیث میں بیان ہوئی باقی جملے لوگوں کے خود ساختہ ہیں۔ مثلاً (وَإِلَیْكَ یَرْجِعُ السَّلاَمُ، حَیِّنَا رَبُّنَا بِالسَّلاَمِ وَأَدْخِلْنَا دَارَالسَّلاَمِ) اسی طرح (تَبَارَکْتَ) کے بعد (رَبَّنَا وَتَعَالَیْتَ) کے الفاظ بھی اضافہ شدہ ہیں۔ ان زائد جملوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔
(3) ”صرف اتنا عرصہ بیٹھتے“ کا مطلب یہ ہے کہ قبلہ رخ صرف اتنا عرصہ بیٹھتے ورنہ ذکر واذکار کے لئے طویل عرصہ تک بیٹھنا سنت سے ثابت ہے۔ (صحیح المسلم، المساجد، باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ وبیان صفته، حدیث: 594)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 924
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1335
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سلام پھیرنے کے بعد صرف (اللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ، وَمِنْكَ السَّلَامُ، تَبَارَكْتَ ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ) پڑھنے کی مقدار تک بیٹھتے تھے اور ابن نمیر کی روایت: (يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ) یعنی یا کے اضافہ کے ساتھ ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1335]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اَنْتَ السَّلاَمُ: کا معنی یہ ہے کہ تو ہرعیب ونقص، حوادث وآفات اور ہر قسم کے تغیر وزوال سے محفوظ اور پاک ہے اور مِنْکَ السَّلاَمُ: کا معنی ہے کہ سلامتی تیرے ہاتھ میں ہے جس کے لیے چاہے اور جب چاہے سلامتی کا فیصلہ کرے اورجس کے لیے نہ چاہے نہ فیصلہ کرے اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مقصد یہ ہے کہ عام طورپر آپﷺ قبلہ رخ بیٹھ کر یہی کلمات پڑھتے تھے اور اس کے بعد مقتدیوں کی طرف منہ کر لیتے تھے اور باقی ذکر و اذکار کرتے تھے جیسا کہ دوسری روایات سے ثابت ہوتا ہے۔