مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1067
1067. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ نے مکہ مکرمہ میں سورہ نجم تلاوت فرمائی تو آپ نے سجدہ کیا۔ آپ کے ساتھ جو لوگ تھے ان سب نے سجدہ کیا۔ ایک عمر رسیدہ شخص کے علاوہ (کہ وہ سجدہ ریز نہ ہوا)، اس نے مٹھی بھر کنکریاں یا مٹی لے کر اسے اپنی پیشانی تک اٹھایا اور کہنے لگا: مجھے یہی کافی ہے۔ اس کے بعد میں نے اسے دیکھا کہ وہ بحالت کفر قتل ہوا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1067]
حدیث حاشیہ:
شاہ ولی اللہ صاحب ؒ نے لکھا ہے کہ جب حضور اکرم ﷺ نے سورۃ نجم کی تلاوت کی تو مشرکین اس درجہ مقہور ومغلوب ہو گئے کہ آپ نے آیت سجدہ پر سجدہ کیا تو مسلمانوں کے ساتھ وہ بھی سجدہ میں چلے گئے۔
اس باب میں یہ تاویل سب سے زیادہ مناسب اور واضح ہے حضرت موسی ؑ کے ساتھ بھی اسی طرح کا واقعہ پیش آیا تھا۔
قرآن مجید میں ہے کہ جب فرعون کے بلائے ہوئے جادوگروں کے مقابلہ میں آپ کاعصا سانپ ہوگیا اور ان کے شعبدوں کی حقیقت کھل گئی تو سارے جادوگر سجدہ میں پڑ گئے۔
یہ بھی حضرت موسی ؑ کے معجزہ سے مدہوش ومغلوب ہو گئے تھے۔
اس وقت انہیں اپنے اوپر قابونہ رہا تھا۔
اور سب بیک زبان بول اٹھے تھے کہ امنا برب موسی وھارون ؑ یہی کیفیت مشرکین مکہ کی ہوگئی تھی۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ کی ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت ﷺ آیت سجدہ پر پہنچے تو آپ نے سجدہ کیا اور ہم نے سجدہ کیا۔
دارقطنی کی روایت میں ہے کہ جن وانس تک نے سجدہ کیا۔
جس بوڑھے نے سجدہ نہیں کیا تھا وہ امیہ بن خلف تھا۔
علامہ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
أما المصنف في روایة إسرائیل أن النجم أول سورة أنزلت فیھا سجدة وھذا ھوالسر في بداءة المصنف في ھذہ الأبواب بھذا الحدیث۔
یعنی مصنف نے روایت اسرائیل میں بتایا کہ سورۃ نجم پہلی سورت ہے جس میں سجدہ نازل ہوا یہاں بھی ان ابواب کو اسی حدیث سے شروع کرنے میں یہی بھید ہے، یوں تو سجدہ سورۃ اقرا میں اس سے پہلے بھی نازل ہو چکا تھا، آنحضرت ﷺ نے جس کا کھل کر اعلان فرمایا وہ یہی سورۃہ نجم ہے اور اس میں یہ سجدہ ہے:
إن المراد أول سورة فیھا سجدة تلاوتھا جھرا علی المشرکین۔
(فتح الباري)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1067
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3853
3853. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ سورہ نجم تلاوت فرمائی تو سجدہ کیا۔ اس وقت آپ کے ساتھ تمام لوگوں نے بھی سجدہ کیا۔ صرف ایک شخص کو میں نے دیکھا کہ اس نے اپنے ہاتھ میں کنکریاں لیں، ان پر اپنا سر رکھ کر کہنے لگا: میرے لیے بس اتنا ہی کافی ہے۔ آخرکار میں نے اسے دیکھا کہ اسے کفر کی حالت میں قتل کر دیا گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3853]
حدیث حاشیہ:
یہ شخص امیہ بن خلف تھا۔
اس حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے مشکل ہے، بعض نے کہا جب امیہ بن خلف نے سجدہ تک نہ کیا تو مسلمانوں کو رنج گذرا گویا ان کو تکلیف دی یہی ترجمہ با ب ہے، بعض نے کہا مسلمانوں کو تکلیف یوں ہوئی کہ مشرکین کے بھی سجدے میں شریک ہونے سے وہ یہ سمجھے کہ یہ مشرک مسلمان ہوگئے ہیں اور جو مسلمان ان کی تکلیف دینے سے حبش کی نیت سے نکل چکے تھے وہ واپس لوٹ آئے۔
بعد میں معلوم ہوا کہ وہ مسلمان نہیں ہوئے ہیں تو دوبارہ وہ مسلمان حبش کی ہجرت کے لئے نکل گئے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3853
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3972
3972. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے سورہ نجم تلاوت فرمائی تو اس میں آپ نے سجدہ کیا اور آپ کے ساتھ لوگوں نے بھی سجدہ کیا لیکن ایک بوڑھے شخص نے (سجدہ کرنے کی بجائے) مٹھی بھر مٹی اپنے ماتھے پر رکھی اور کہا: مجھے یہی کافی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: اس کے بعد میں نے اسے دیکھا کہ وہ کفر کی حالت میں قتل کیا گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3972]
حدیث حاشیہ:
یعنی امیہ بن خلف جسے جنگ بدر میں خود بلا ل ؓنے اپنے ہاتھوں سے قتل کیا تھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3972
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1070
1070. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے سورہ نجم تلاوت کی تو اس میں سجدہ کیا۔ ایک آدمی کے علاوہ قوم میں کوئی ایسا نہ تھا جس نے سجدہ نہ کیا ہو۔ اس نے کنکریوں یا مٹی کی مٹھی بھر لی اور اسے اپنے چہرے کی طرف اٹھا کر کہنے لگا: مجھے تو یہی کافی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں: میں نے اسے دیکھا کہ وہ بعد میں (میدان بدر میں) بحالت کفر قتل ہوا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1070]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے سورۃ نجم میں سجدہ تلاوت بھی ثابت ہوا۔
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
فلعل جمیع من وفق للسجود یومئذ ختم له بالحسنیٰ فأسلم لبرکة السجود۔
یعنی جن جن لوگوں نے اس دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سجدہ کر لیا (خواہ ان میں سے کافروں کی نیت کچھ بھی ہو بہرحال)
ان کو سجدہ کی برکت سے اسلام لانے کی توفیق ہوئی اور ان کا خاتمہ اسلام پر ہوا۔
بعد کے واقعات سے ثابت ہے کہ کفار مکہ بڑی تعداد میں مسلمان ہوگئے تھے جن میں یقینا اس موقعہ پر یہ سجدہ کرنے والے بھی شامل ہیں۔
مگر امیہ بن خلف نے آج بھی سجدہ نہیں کیا بلکہ رسماً مٹی کو ہاتھ میں لے کر سر سے لگا لیا اس تکبر کی وجہ سے اس کو اسلام نصیب نہیں ہوا۔
آخر کفر کی ہی حالت میں وہ مارا گیا۔
خلاصہ یہ کہ سورۃ نجم میں بھی سجدہ ہے اور یہ عزائم السجود میں شمار کر لیا گیا ہے، یعنی جن سجدوں کا ادا کرنا ضروری ہے:
وعن علي ما ورد الأمر فیه بالسجود عزیمة۔
حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ جن آیات میں سجدہ کرنے کاحکم صادر ہوا ہے وہ سجدے ضروری ہیں۔
(فتح)
مگر ضروری کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ وہ فرض واجب ہوں جب کہ سجدہ تلاوت سنت کے درجہ میں ہے یہ امر علیحدہ ہے کہ ہر سنت نبوی پر عمل کرنا ایک مسلمان کے لیے سعادت دارین کا واحد وسیلہ ہے۔
واللہ أعلم وعلمه أتم۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1070
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1067
1067. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ نے مکہ مکرمہ میں سورہ نجم تلاوت فرمائی تو آپ نے سجدہ کیا۔ آپ کے ساتھ جو لوگ تھے ان سب نے سجدہ کیا۔ ایک عمر رسیدہ شخص کے علاوہ (کہ وہ سجدہ ریز نہ ہوا)، اس نے مٹھی بھر کنکریاں یا مٹی لے کر اسے اپنی پیشانی تک اٹھایا اور کہنے لگا: مجھے یہی کافی ہے۔ اس کے بعد میں نے اسے دیکھا کہ وہ بحالت کفر قتل ہوا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1067]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ سورۂ نجم پہلی سورت ہے جس میں سجدۂ تلاوت کا نزول ہوا۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4863)
یہی وجہ ہے کہ امام بخاری ؒ سجدہ ہائے تلاوت کے سلسلے میں اس حدیث کو پہلے لائے ہیں۔
لیکن اعتراض ہو سکتا ہے کہ سورۂ علق اس سے قبل نازل ہوئی تھی جس میں سجدۂ تلاوت ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ سورۂ علق کی ابتدائی پانچ آیات پہلے نازل ہوئی تھیں جن میں سجدۂ تلاوت نہیں ہے اور سجدے پر مشتمل آیات کا نزول سورۂ نجم کے بعد ہوا ہے، یعنی سورۂ نجم پہلی سورت ہے جس میں سجدۂ تلاوت بھی ہے اور اسے رسول اللہ ﷺ نے علانیہ طور پر مشرکین مکہ کے سامنے پڑھ کر سنایا ہے۔
(فتح الباري: 712/2) (2)
اس میں اس کے طریقے کی طرف بھی اشارہ ہے کہ سجدہ زمین پر ہونا چاہیے، مٹی یا کنکریاں ہاتھ میں لے کر پیشانی پر رکھ لینا مشرکین کا طریقہ ہے۔
مسلمان کی شان کے خلاف ہے۔
(3)
ایک روایت میں اس عمر رسیدہ شخص کی صراحت ہے جس نے سجدۂ تلاوت نہیں کیا تھا۔
وہ امیہ بن خلف تھا جس نے مٹی ہاتھ میں لے کر اس پر اپنا ماتھا ٹیک دیا تھا۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4863)
حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ سورۂ نجم کی تلاوت کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ مسلمانوں کے ساتھ مشرکین نے بھی سجدہ کیا تھا۔
اصل واقعہ یہ ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے اہل مکہ کو اسلام کی دعوت دی تو تمام لوگوں نے اس دعوت کو قبول کر لیا تھا۔
اس وقت اتنے لوگ آپ کے ساتھ تھے کہ بھیڑ کی وجہ سے کچھ لوگوں کو سجدۂ تلاوت کرنے کے لیے جگہ نہ ملتی تھی، لیکن جب قریش کے سردار ولید بن مغیرہ اور ابوجہل وغیرہ طائف سے مکہ آئے تو ان کے گمراہ کرنے سے مشرکین اپنے آبائی دین کی طرف واپس لوٹ گئے۔
یہ لوگ اپنے سرداروں کو خوش کرنے کے لیے مرتد ہوئے تھے۔
دین اسلام سے بیزار ہو کر کوئی آدمی مرتد نہیں ہوا جیسا کہ حضرت ابو سفیان ؓ نے حدیث ہرقل میں اس کا اعتراف کیا تھا۔
(صحیح البخاري، بدءالوحي، حدیث: 7)
حافظ ابن حجر ؒ نے مشرکین کے سجدہ کرنے کی یہی وجہ بیان کی ہے۔
(فتح الباري: 712/2)
لیکن انہیں نقل واقعہ کے وقت ان کی موجودہ حالت کی وجہ سے مشرکین کہا گیا کیونکہ اعتبار انجام کا ہوتا ہے۔
واللہ أعلم۔
چونکہ اس روایت میں معبودان باطلہ لات، منات اور عزیٰ کا ذکر ہے، اس لیے بعض حضرات نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب سورۂ نجم کی تلاوت فرمائی تو مشرکین خوشی میں آ کر اس قدر حواس باختہ ہوئے کہ مسلمانوں کے ساتھ وہ بھی سجدے میں گر گئے۔
واضح رہے کہ اس سلسلے میں جو غرانیق کا واقعہ بیان کیا جاتا ہے وہ سرے سے بے بنیاد اور غلط ہے۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں:
حق یہ ہے کہ مشرکین نے رسول اللہ ﷺ کا جلال و جبروت دیکھ کر اور قرآن کریم کے مواعظ عقلیہ سے متاثر ہو کر سجدہ کیا، ان کے ہاں کوئی اختیار ہی باقی نہیں رہا تھا اور یہ کوئی بعید از عقل بات نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1067
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1070
1070. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے سورہ نجم تلاوت کی تو اس میں سجدہ کیا۔ ایک آدمی کے علاوہ قوم میں کوئی ایسا نہ تھا جس نے سجدہ نہ کیا ہو۔ اس نے کنکریوں یا مٹی کی مٹھی بھر لی اور اسے اپنے چہرے کی طرف اٹھا کر کہنے لگا: مجھے تو یہی کافی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں: میں نے اسے دیکھا کہ وہ بعد میں (میدان بدر میں) بحالت کفر قتل ہوا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1070]
حدیث حاشیہ:
اس شخص کے متعلق مختلف روایات ہیں:
سیرت ابن اسحاق میں ہے کہ وہ ولید بن مغیرہ تھا لیکن وہ میدان بدر میں قتل نہیں ہوا۔
بعض روایات میں سعید بن عاص اور ابولہب کا ذکر ہے۔
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ اس وقت سجدہ نہ کرنے والے وہ قریشی تھے جو شہرت کے طلبگار تھے۔
سنن نسائی میں ہے کہ وہ مطلب بن ابی وداعہ تھا، لیکن یہ اس وقت مسلمان نہیں ہوا تھا۔
امام بخاری ؒ نے خود ایک روایت میں صراحت کی ہے کہ وہ امیہ بن خلف تھا۔
بہرحال حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے صرف ایک آدمی کو دیکھا ہو گا جس نے کنکریوں سے مٹھی بھر کر انہیں اپنے چہرے کی طرف اٹھا لیا تھا اور اسے انہوں نے بیان کر دیا۔
(فتح الباري: 712/2)
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1070
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3853
3853. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ سورہ نجم تلاوت فرمائی تو سجدہ کیا۔ اس وقت آپ کے ساتھ تمام لوگوں نے بھی سجدہ کیا۔ صرف ایک شخص کو میں نے دیکھا کہ اس نے اپنے ہاتھ میں کنکریاں لیں، ان پر اپنا سر رکھ کر کہنے لگا: میرے لیے بس اتنا ہی کافی ہے۔ آخرکار میں نے اسے دیکھا کہ اسے کفر کی حالت میں قتل کر دیا گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3853]
حدیث حاشیہ:
1۔
مسلمانوں کو مشرکین نے اس قدر تکلیفیں دیں کہ وہ حبشہ کی طرف ہجرت کر کے چلے گئے۔
جب رسول اللہ ﷺ نے سورہ نجم تلاوت کی اور مشرکین نے آپ کے ہمراہ سجدہ کیا تو مسلمانوں نے سمجھا کہ مشرکین نے اسلام قبول کر لیا ہے۔
اس کی اطلاع جب مہاجرین حبشہ کو ملی تو وہ واپس آگئے پھر انھیں پہلے سے زیادہ تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا حتی کہ وہ دوبارہ ہجرت حبشہ پر مجبور ہو گئے۔
عنوان سے اس حدیث کی یہی مطابقت ہے۔
2۔
واضح رہے کہ امیہ بن خلف نے سجدہ نہیں کیا تھا۔
وہ غزوہ بدر میں بحالت کفر قتل کیا گیا۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3853
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3972
3972. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے سورہ نجم تلاوت فرمائی تو اس میں آپ نے سجدہ کیا اور آپ کے ساتھ لوگوں نے بھی سجدہ کیا لیکن ایک بوڑھے شخص نے (سجدہ کرنے کی بجائے) مٹھی بھر مٹی اپنے ماتھے پر رکھی اور کہا: مجھے یہی کافی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: اس کے بعد میں نے اسے دیکھا کہ وہ کفر کی حالت میں قتل کیا گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3972]
حدیث حاشیہ:
1۔
ایک روایت میں وضاحت ہے کہ وہ بوڑھا جس نے زمین پر سجدہ کرنے کے بجائے مٹی یا کنکریاں ہاتھ میں لے کر انھیں پیشانی پر رکھ لیا تھا وہ امیہ بن خلف مردود تھا۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4863)
2۔
یہ وہی امیہ بن خلف ہے جسے میدان بدر میں حضرت بلال ؓ نے اپنے ہاتھوں سے قتل کیا تھا۔
اس مناسبت سے اس حدیث کو امام بخاری ؒ نے بیان کیا ہے۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3972
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4863
4863. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: سب سے پہلے جو سجدے والی سورت نازل ہوئی وہ سورہ نجم ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس میں سجدہ کیا تو جتنے لوگ آپ کے پیچھے تھے سب نے سجدہ کیا مگر ایک آدمی کو میں نے دیکھا کہ اس نے مٹھی بھر مٹی لی اور اس پر سجدہ کیا۔ اس کے بعد میں نے اسے دیکھا کہ وہ کفر کی حالت میں قتل ہوا اور وہ شخص امیہ بن خلف تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4863]
حدیث حاشیہ:
ایک روایت میں ہے کہ امیہ خلف نے سجدہ کرنے کے بجائے کنکریاں یا مٹی اپنی مٹھی میں لی پھر انھیں پیشانی سے لگا کر کہنے لگا:
مجھے اتنا ہی کافی ہے۔
(صحیح البخاري، سجود القرآن و سنتها، حدیث: 1067)
چنانچہ وہ غزوہ بدر میں بحالت کفر قتل ہوا۔
اگر وہ بد بخت سجدہ کر لیتا تو ممکن تھا کہ اللہ تعالیٰ اسے ایمان قبول کرنے کی توفیق عطا فرماتا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4863