عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے غلام یسار کہتے ہیں کہ مجھے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فجر طلوع ہونے کے بعد نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا: یسار! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکل کر آئے، اور ہم یہ نماز پڑھ رہے تھے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے موجود لوگ غیر حاضر لوگوں کو بتا دیں کہ فجر (طلوع) ہونے کے بعد فجر کی دو سنتوں کے علاوہ اور کوئی نماز نہ پڑھو۔“[سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1278]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الصلاة 194 (419)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 18(235)، (تحفة الأشراف: 8570)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/23، 57، 104) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (419) ابن ماجه (235) ابن الحصين مجهول (تق: 5823) وللحديث شواهد ضعيفة،ويغني عنه حديث مسلم (723) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 53
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1278
1278. اردو حاشیہ: شیخ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک یہ روایت صحیح ہے، اس سے معلوم ہوا کہ طلوع فجر کے بعد فرضوں سے پہلے صرف دو رکعت سنتیں ہی پڑھی جائیں۔ تاہم رات کے وتر دن چڑھے پڑھنا مشکل ہوں تو اس وقت میں ادائیگی جائز ہے، جیسے کہ سببی نماز کا مسئلہ ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1278
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 142
´فجر (کی فرض نماز) کے بعد صرف دو سنت` «. . . ان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: لا صلاة بعد الفجر إلا سجدتين . . .» ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ”فجر (کی فرض نماز) کے بعد صرف دو سنتوں کے علاوہ اور کوئی (نفل) نماز نہیں . . .“[بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 142]
� لغوی تشریح: «لَا صَلَاةَ بَعْدَ الْفَجْرِ» «بَعْدَ الْفَجْرِ» سے مراد طلوع فجر ہے۔ «إِلَّا سَجْدَتَيْنِ» یہاں سجدتین کے معنی رکعتیں ہیں اور ایک نسخہ میں سجدتین کی جگہ رکعتین ہے۔ ان دو رکعتوں سے فجر کی دو سنتیں مراد ہیں۔
فائدہ: مذکورہ روایات کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور ابوداود کی تحقیق میں لکھا ہے کہ اس مسئلے کی بابت صحیح مسلم کی روايت: [723] کفایت کرتی ہے۔ غالباً اسی وجہ سے شیخ البانی رحمہ اللہ اور دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے، لہٰذا معلوم ہوا کہ طلوع فجر کے بعد فرضوں سے پہلے صرف دو رکعت سنتیں ہی پڑھی جائیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 142
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1144
´فجر سے پہلے کی دو رکعت سنت کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز سے پہلے دو رکعت پڑھتے تھے، گویا کہ آپ اقامت سن رہے ہوں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1144]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) نماز ہلکی پڑھنے کا یہ مطلب نہیں کہ رکوع اور سجود اطمینان سے ادا نہ کیے جایئں۔ بلکہ تسبیحات کی تعداد اور تلاوت کی مقدار میں کمی مراد ہے۔
(2) رسول اللہ ﷺ فجر کی سنتوں میں ﴿سوره...قل ياايهاالكافرون﴾ اور ﴿سوره ...قل هوالله احد﴾ کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ او ر یہ سب سے مختصر سورتوں میں سے ہیں۔ (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب استحباب رکعتي سنة الفجر...، حدیث: 726 وسنن ابن ماجه، حدیث: 1150، 1148) بعض اوقات ان رکعتوں میں قدرے طویل قراءت بھی کرلیتے تھے۔ (صحیح مسلم حوالہ مذکور بالا)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1144
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 419
´طلوع فجر کے بعد سوائے فجر کی دو رکعت سنت کے کوئی نماز نہیں۔` عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”طلوع فجر کے بعد سوائے دو رکعت (سنت فجر) کے کوئی نماز نہیں۔“ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ طلوع فجر کے بعد (فرض سے پہلے) سوائے دو رکعت سنت کے اور کوئی نماز نہیں۔ [سنن ترمذي/أبواب السهو/حدیث: 419]
اردو حاشہ: 1؎: یعنی: مستقل طور پر کوئی سنت نفل اس درمیان ثابت نہیں، ہاں اگر کوئی گھر سے فجر کی سنتیں پڑھ کر مسجد آتا ہے، اور جماعت میں ابھی وقت باقی ہے تو دو رکعت بطور تحیۃ المسجد کے پڑھ سکتا ہے، بلکہ پڑھنا ہی چاہیے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 419