جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن لگا، یہ اسی دن کا واقعہ ہے جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراہیم کی وفات ہوئی، لوگ کہنے لگے کہ آپ کے صاحبزادے ابراہیم کی وفات کی وجہ سے سورج گرہن لگا ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور لوگوں کو نماز (کسوف) پڑھائی، چار سجدوں میں چھ رکوع کیا ۱؎، اللہ اکبر کہا، پھر قرآت کی اور دیر تک قرآت کرتے رہے، پھر اتنی ہی دیر تک رکوع کیا جتنی دیر تک قیام کیا تھا، پھر رکوع سے سر اٹھایا اور پہلی قرآت کی بہ نسبت مختصر قرآت کی پھر اتنی ہی دیر تک رکوع کیا جتنی دیر تک قیام کیا تھا، پھر رکوع سے سر اٹھایا پھر تیسری قرآت کی جو دوسری قرآت کے بہ نسبت مختصر تھی اور اتنی دیر تک رکوع کیا جتنی دیر تک قیام کیا تھا، پھر رکوع سے سر اٹھایا، اس کے بعد سجدے کے لیے جھکے اور دو سجدے کئے، پھر کھڑے ہوئے اور سجدے سے پہلے تین رکوع کیے، ہر رکوع اپنے بعد والے سے زیادہ لمبا ہوتا تھا، البتہ رکوع قیام کے برابر ہوتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں پیچھے ہٹے تو صفیں بھی آپ کے ساتھ پیچھے ہٹیں، پھر آپ آگے بڑھے اور اپنی جگہ چلے گئے تو صفیں بھی آگے بڑھ گئیں پھر آپ نماز سے فارغ ہوئے تو سورج (صاف ہو کر) نکل چکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگو! سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، کسی انسان کے مرنے کی وجہ سے ان میں گرہن نہیں لگتا، لہٰذا جب تم اس میں سے کچھ دیکھو تو نماز میں مشغول ہو جاؤ، یہاں تک کہ وہ صاف ہو کر روشن ہو جائے“، اور راوی نے بقیہ حدیث بیان کی۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1178]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الکسوف 3 (904)، سنن النسائی/الکسوف 12 (1477)، (تحفة الأشراف: 2438)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/274، 382) (صحیح)» (چھ رکوع والی بات شاذ ہے، صحیح ’’چار رکوع‘‘ ہے)
وضاحت: ۱؎: یہ روایت بھی شاذ ہے، صحیح روایت دو رکوع کی ہے، جیسا کہ خود جابر رضی اللہ عنہ کی اگلی روایت میں ہے۔
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1178
1178۔ اردو حاشیہ: ➊ اس حدیث کا باب سے تعلق واضح نہیں ہے۔ الا یہ کہ نماز کسوف میں ہر پہلا قیام اور رکوع لمبا اور دوسرا اس سے کم ہونا چاہیے۔ ➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے مصلے سے آگے بڑھناجنت کے مشاہدے کی بنا پر تھا اور پیچھے ہٹنا جہنم کے دکھائے جانے کے باعث تھا۔ ➌ شیخ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک اس میں بھی چھ رکوع کے الفاظ شاذ ہیں۔ محفوظ الفاظ چار رکوع ہیں جیسا کہ اگلی حدیث میں ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1178
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1479
´سورج گرہن کی نماز کے ایک اور طریقہ کا بیان۔` جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک انتہائی گرم دن میں سورج گرہن لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو نماز پڑھائی، اور لمبا قیام کیا یہاں تک کہ لوگ (بیہوش ہو ہو کر) گرنے لگے، پھر آپ نے لمبا رکوع کیا، پھر آپ رکوع سے اٹھے تو آپ نے لمبا قیام کیا، پھر آپ نے لمبا رکوع کیا، پھر آپ رکوع سے اٹھے تو لمبا قیام کیا، پھر دو سجدے کیے، پھر آپ کھڑے ہوئے تو آپ نے پھر اسی طرح کیا، نیز آپ آگے بڑھے پھر پیچھے ہٹنے لگے، تو یہ چار رکوع اور چار سجدے ہوئے، لوگ کہتے تھے کہ سورج اور چاند گرہن ان کے بڑے آدمیوں میں سے کسی بڑے آدمی کی موت کی وجہ سے لگتا ہے، حالانکہ یہ دونوں اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں جنہیں اللہ تمہیں دکھاتا ہے، تو جب گرہن لگے تو نماز پڑھو جب تک کہ وہ چھٹ نہ جائے۔ [سنن نسائي/كتاب الكسوف/حدیث: 1479]
1479۔ اردو حاشیہ: فوائد کے لیے دیکھیے روایت: 1473۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1479
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2102
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں، جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوت ہوئے، سورج گرہن ہو گیا، بعض لوگوں نے کہا: سورج کو گہن تو بس حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موت کی بنا پر لگ گیا ہے۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور لوگوں کو چھ رکوعوں، چار سجدوں کے ساتھ (دو رکعت) نماز پڑھائی۔ تکبیر تحریمہ سے آغاز کیا پھر قراءت کی اور طویل قراءت کی، پھر قیام کے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:2102]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) اضت الشمس: سورج پہلی کیفیت کی طرف لوٹ آیا۔ (2) لفح: لپٹ لو، یا لو اور تپش۔ (3) محجن: ایک طرف سے مڑی ہوئی لاٹھی۔ فوائد ومسائل: حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت سے ثابت ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی موت کے دن والے سورج گہن کے لیے نماز میں ہر رکعت میں تین رکوع کیے تھے اور یہ واقعہ 27جنوری 632ء بمطابق 29 شوال 10 ہجری بروز سوموارپیش آیا اور چونکہ فتح مکہ کے بعد لوگ جوق درجوق مسلمان ہو رہے تھے اس لیے یہاں بھی آپ نے وہی باتیں دہرائیں جو پہلے بتا چکے تھے اور آپ کو یہاں بھی جنت اور دوزخ کا نظارہ تقریباً اسی طرح کرایا گیا ہاں پہلے حدیث میں صاحب محجن کا واقعہ نہیں ہے۔